بزرگ ایرانی دانشور اور صحافی علی دشتی نے جنت اور جہنم کا فرق کیسے معلوم کیا؟


رضا خان ایک انتہائی روشن خیال حکمران ثابت ہوئے۔ ان کے سولہ سالہ دور اقتدار میں ایران میں سڑکوں کا جال بچھانے کے علاوہ تہران ریلوے کا قیام عمل میں آیا۔ دانشگاہ تہران کے نام سے ایران میں سب سے پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی۔ اپنے بیٹوں کے علاوہ دیگر ایرانی طلبا کو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیجا گیا جس کے اخراجات حکومت نے برداشتکیے ۔ مغرب میں ایران کے لیے پرشیا کا لفظ استعمال ہوتا تھا، اس کے لیے لیگ آف نیشنز میں وفد بھیجا گیا کہ آئندہ سے اس ملک کو پرشیا کی بجائے ایران یعنی آریاؤن کی سر زمین پکارا جائے۔

ملک میں مقیم یہودیوں کو برابر کا شہری قرار دیا گیا، اور نہ صرف انہیں باقی مسلمان آبادی کی مانند یکساں حقوق دیے گئے بلکہ ان کے سیناگاگ میں جا کر خود رضا خان نے عبادت کی۔ اسی وجہ سے یہودی آج بھی رضا خان کو ایرانی شہنشاہ سائرس اعظم کے بعد اپنا دوسرا محسن قرار دیتے ہیں۔

خواتین کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے انہیں تعلیم اور ملازمتیں دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔ حجاب اور چادر کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی اور اس کی جگہ مغربی لباس پہننے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ باقاعدہ حکم جاری کیا گیا کہ اگر کسی تقریب میں میاں بیوی آئیں تو بیوی کے سر پر اوڑھنی نہیں ہو گی، اور اس حکم کی تعمیل کے سلسلے میں کسی کے امیر یا غریب، شہری یا دیہاتی ہونے کے فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جائے گا۔ درسگاہوں میں مخلوط تعلیم کا نظام رائج کیا گیا۔ اس کے علاوہ محرم کے ماتم کو ایک دن تک محدود کردیا گیا۔ مساجد میں عبادت کے لیے زمین پر بیٹھنے کی بجائے کرسی استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی۔

مذہبی حلقوں کو رضا خان کے یہ اقدامات پسند نہ آئے اور نہ ہی وہ عورتوں کی ”بے پردگی“ برداشت کر پائے۔ چنانچہ رضا خان کے خلاف محاذ کھڑا ہو گیا جن کا اہم ترین نعرہ ”شاہ ایک نیا یزید ہے“ تھا۔

رضا خان ایران، ترکی اور مشرق وسطیٰ جیسے ہمسایہ ممالک کو ملا کر ایک کنفیڈریشن کے قیام کے بھی خواہاں تھے لیکن ان کا یہ خواب اتاترک کی موت کی وجہ سے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

رضا خان کے زمانے میں علی دشتی نے شفق سرخ نام سے ایک اخبار جاری کیا۔ جو اپنے جرآت مندانہ مضامین کی وجہ سے اپنے وقتوں کے دانشوروں کے خیالات کا ترجمان سمجھا جانے لگا۔ دشتی نے جہاں رضا شاہ کو ایرانی اتاترک کے طور پر مدح سرائی کی، وہیں وہ رضا خان کے آمرانہ رویوں کو ہضم نہ کر سکے۔ 1935 ء میں دشتی کو چودہ ماہ کی قید کا حکم سنانے کے علاوہ شفق سرخ کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔

تین ماہ کی قید کے دوران علی دشتی بیمار ہو گئے اور انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں سے دو ماہ بعد وہ گھر پہنچا دیے گئے۔ کچھ عرصہ بعد انہیں ”ادارہ راہنمای نامہ نگاری“ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد کتابوں اور اخبارات و رسائل پر سنسر کی پالیسی کا اطلاق کرنا ہوا کرتا تھا۔ 1941 ء میں علی دشتی نے جمال امامی، ابراہیم خواجہ نوری اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حزب عدالت نامی سیاسی جماعت بنائی جس میں وہ 1948 ء تک متحرک رہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران رضا خان پہلوی نے ایران کے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ کو رضا خان کا فیصلہ پسند نہ آیا اور برطانیہ نے الزام لگایا کہ ایران میں جرمن مہندس اور تکنیکی ماہرین جاسوسی کر رہے ہیں۔ چنانچہ ایران پر سوویٹ یونین اور برطانیہ نے بمباری شروع کر دی۔ 1941 میں اتحادی قوتوں نے ایران پر قبضہ کر لیا، رضا خان گرفتار ہوئے اور رضا خان کو اپنے بیٹے محمد رضا پہلوی کے حق میں دستبردارکروانے کے بعد ملک بدر کر دیا گیا۔

گو رضا خان پہلوی کی حکومت کے دوران مجلس شوریٰ کے انتخابات میں علی دشتی بوشہر کے علاقے سے لگاتار منتخب ہوتے رہے تھے لیکن وہ اس دوران خود کو سیاستدان سے زیادہ ایک صحافی سمجھتے تھے۔ رضا خان کے بیٹے محمد رضا پہلوی کے دور میں علی دشتی کی سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی اور مذہب اور صحافت میں ان کی دلچپسی کم ہو گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کے مذہبی اعتقادات میں کمی آئی، اس سے پہلے وہ اسلام کو ایران کے تمام مسائل کا حل سمجھتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ارد گرد کے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

محمد رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں علی دشتی نے فرانسیسی سیکھنے کی طرف توجہ دی کیونکہ فرانسیسی کو زبان زمانہ جدید کی ثقافت اور تہذیب کو سمجھنے کا دروازہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے برطانیہ اور روس کی تاریخ و ثقافت کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ ممالک تہذیب و ترقی کی بلندیوں پر پہنچ پائے۔

1947 ء میں علی دشتی کو تودیہہ نامی سوویٹ یونین نواز کمیونسٹ پارٹی کو کابینہ میں شامل کیے جانے اور روس کو دی جانے والی رعاتیوں پر تنقید کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ چھ ماہ کی قید سے رہائی کے بعد وہ تہران سے فرانس چلے گئے اور دو سال بعد لوٹے۔ واپسی پر ایک سال کے لیے ان کا مصر میں سفیر کے طور پر تقرر ہوا۔ 1954 میں وہ سینٹ کے رکن بنا دیے گئے، اور انہوں نے پہلوی حکومت کے خاتمے تک ایک سینٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

علی دشتی نے 1973 ء میں بیست و سہ سال نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب پیغمبر اسلام کے وحی سے وفات تک کے تئیس سال مشن کے بارے میں تھی۔ یہ کتاب جہاں دشتی کی مشہوری کی سب سے بڑی وجہ ہے، وہیں اس کتاب کی وجہ سے ان پر امام خمینی کے دور حکومت میں بہت ظلم ڈھایا گیا۔

محمد رضا پہلوی کے دور حکومت میں مذہب مخالف اور سیاست کے متعلق کتاب لکھنے اور شائع کرنے پر پابندی تھی۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں دشتی کے بہت زیادہ عرب دوست بھی تھے۔ لہذا انہوں نے اپنی یہ کتاب پوشیدہ انداز میں وہاں ایک ناشر دوست کو بھجوا دی۔ ناشر نے جب علی دشتی سے پوچھا کہ اس پر مولف کے طور پر تمہارا نام دیا جائے؟ ، تو دشتی نے اسے منع کرتے ہوئے کہا ”اس پر جس کا نام چاہو لکھ دو، میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں تک سچائی پہنچے“۔ اور یوں 1974 ء میں یہ کتاب ناشر اور مولف کے نام کے بغیر شائع ہوئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3