بزرگ ایرانی دانشور اور صحافی علی دشتی نے جنت اور جہنم کا فرق کیسے معلوم کیا؟


اس کتاب کے بیروت میں چھپنے کے حوالے سے چند مذہبی لوگوں کو وہاں بھنک پڑی تو انہوں نے کوشش کی کہ کتاب بازار میں نہ آ سکے۔ بیروت کی عدالت کے صدر موسیٰ صدر سے رابطہ کیا کہ کتاب کی اشاعت کو کسی طور پر روکا جائے۔ موسیٰ صدر اور علی دشتی کی لمبی بات چیت کے نتیجے میں کتاب کو جلایا تو نہ گیا البتہ اسے بازار تک پہنچنے سے روک دیا گیا۔ اور کتاب کی تمام کاپیاں لبنان میں علی دشتی کے ایک دوست علی نقی منزوی کو پہنچا دی گئیں۔

علی نقی کسی طور کچھ کتابوں کو ایران سمگل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چونکہ چھاپہ خانے میں صرف عربی حروف تہجی تھے، لہذا بہت سی فارسی آوازیں جیسے گ پ چ ز وغیرہ عربی میں نہ ہونے کی وجہ سے کتاب میں کافی اغلاط تھیں لیکن دشتی کو خوشی تھی کہ ان کی کتاب چھپ گئی ہے لہذا انہوں نے تمام کاپیاں اپنے نزدیکی دوستوں میں بانٹ دیں۔

خمینی کے دور حکومت میں یہ کتاب زیر زمین حکومت مخالفین دانشوروں، طالبعلموں اور ایکٹوسٹوں میں بہت مقبول ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ صرف ایک سال کے اندر اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ کتاب کی اس قدر مقبولیت سے حکومتی علماء بہت فکرمند ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے خمینی کو خط لکھنے شروع کر دیے کہ اس کتاب کے مولف کو ڈھونڈ کر موت کی سزا دی جائے نیز اسے پاس رکھنے یا پڑھنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ علی دشتی کو کتاب کی فروخت کی آمدنی کی پرواہ تھی اور نہ اپنی کتاب کے مولف ہونے کا کریڈٹ لینے کا کوئی شوق تھا۔ لہذا کتاب پر ان کا نام درج نہیں تھا۔

کتاب کے مولف یا ناشر کا پتہ لگانے کے لیے بہت پکڑ دھکڑ ہوئی، بہت سے روشن خیال دانشور، مولفین اور تاریخ دان پابند سلاسل اور نام اگلوانے کی خاطر بہت سی اذیتوں اور تشدد کا شکار ہوئے۔ خمینی کے لوگوں نے لبنان میں بھی رابطے کر کے پتہ لگانے کی کوشش کی کہ اسے کس ناشر نے چھاپا ہے۔ لیکن انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

انہیں دنوں علی نقی منزوی کے نام کا پتہ چلا جو ایک یہودی تھا، اور گولڈ زہیر کی ایک کتاب کا فارسی میں ترجمہ کر چکا تھا، علی نقی پکڑا گیا اور اسے قید خانے کے اندر بہت عرصہ تک تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے علی نقی نے آخر کار علی دشتی کا نام اگل دیا۔ علی دشتی کا نام سامنے آ جانے کے بعد خمینی کے پاسداران انقلاب نے اکیاسی سالہ علی دشتی کو قید کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان پر انقلابی عدالت میں مقدمہ بھی چلایا گیا جس نے انہیں اسلام کے خلاف کتاب لکھنے پر موت کی سزا سنائی۔

علی دشتی جیل جانے سے پہلے جسمانی اور ذہنی طور تندرست تھے۔ لیکن ان پر اس قدر تشدد ہوا کہ ان کی ران بری طرح ٹوٹ گئی اور انہیں ہسپتال داخل کرنا پڑا۔ اُن کے ایک دوست کو بمشکل اجازت ملی کہ وہ ہسپتال میں ان سے ملاقات کر سکے۔ زندگی سے پیار کرنے والے علی دشتی نے دوست سے سائیا نائڈ لا دینے کی درخواست کی تاکہ وہ اپنی زندگی کو ختم کر سکیں کیونکہ اب یہ تشدد ان سے مزید سہا نہیں جا رہا تھا۔ علی دشتی نے اپنے دوست سے مزید کہا ”اب میں سمجھ چکا ہوں کہ دوزخ اور جنت میں کیا فرق ہے۔ جب میں شاہ کی قید میں تھا تو وہ جنت تھی، اور یہ موجودہ قید ایک جہنم ہے“۔

علی دشتی نے 16 جنوری 1982 ء کو تہران کے جام ہسپتال میں وفات پائی، اورانہیں امام زادہ شہرری کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی موت کی وجہ ان کی ران کا زخم نہیں بلکہ ان کی روح کو لگے زخم اور قید خانے میں کیا گیا تشدد تھا جس کو وہ سہہ نہ پائے۔

بیست و سہ سال آج بھی ایران میں مکمل طور پر ممنوع کتاب ہے۔ اگر یہ کتاب کسی کے گھر پائی جائے، کوئی اسے خریدتا یا بیچتا پایا جائے تو انہیں سزا کے طور پر قید یا موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ علی دشتی کی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ان کی خواہش کے مطابق ان کی وفات کے بعد 1994 ء میں شائع ہوا۔

علی دشتی نے اخبارات و رسائل میں مضامین لکھنے کے علاوہ ناول نگاری، اخلاقیات، سیاست، فارسی تراجم، مذہبیات، فلسفہ اورکلاسیکی ایرانی ادب کے خالقین جیسے سعدی، حافظ، خیام، مولانا جلال الدین بلخی وغیرہ پر چالیس کے لگ بھگ کتابیں لکھیں

مذہب اور اخلاقیات کے حوالے سے انہوں نے پردہ پندار اور در دیارِ صوفیاں نامی کتابیں لکھیں جو صوفی ازم کو زیر بحث لاتی ہیں۔ جبر و اختیار نامی کتاب میں وہ آزاد ارادے اور تقدیر کے مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ”عقل بر خلاف عقل“ نامی کتاب کو علی دشتی نے اپنا نام دیے بغیر شائع کروایا۔ اس میں وہ امام غزالی کے منطقی تضادات کو سامنے لاتے ہیں۔

تیسری کتاب جسے انہوں نے اپنا نام دیے بغیر شائع کروایا وہ تخت پولاد ہے۔ 1971 ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کو ایک مذہبی عالم اور اس کے شاگرد کے درمیان مکالمہ کے انداز میں لکھا گیا ہے، جس میں عالم ہر چیز کو قران و حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہوئے مملکت کو قران و حدیث کے طے کردہ قوانین کے تحت چلانا چاہتا ہے۔ یہ کتاب امام خمینی کی کتاب ولایت فقیہہ کا جواب تھی۔

علی دشتی کو ایران کے دانشورانہ حلقوں میں ایک سورج کے حیثیت حاصل ہے۔ اور اُن کا نام ان تمام دلوں میں زندہ ہے جنہوں نے ان کی کتابیں اور مضامین پڑھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3