تذکرہ ایک شعلہ بیاں مقرر اور ہردلعزیز لکھاری کا


شگفتہ گلابی چہرہ، رُخسار انارکلی، روشن روشن آنکھیں، اَبرؤں سے ذہانت پھوٹتی ہُوئی، لبوں کے اِبتسام میں کھِلتے ہُوے تازہ غنچے کی گُلکاری، چمکدار دانتوں کی روشنیاں سرخ ہونٹوں پر رقصاں، سر پر سجے ہُوے چمکیلے بالوں میں بائیں طرف ایسی مانگ جو صندل بھرنے کی مستحق ہو، ریش کی فصل سے کشت زارِ رُوئے مبارک پاک صاف، مناسب سبیل سے بالائی لب مزین، موزوں قدو قامت، رفتار و گفتار میں از حد کشش، سجیلا بدن، خوش لباس و خوش وضع، قرینوں اور سلیقوں کے دلدادہ، اِس دَورِ بے ساعت میں بھی بائیں کلائی پر نظر نواز خوبصورت گھڑی باندھے ہُوے، لطافت پسند، میٹھی میٹھی آواز، شیریں گفتار، ہر ادا نفاست سے بھرپور، سیروسیاحت کے از حد شوقین، اہلِ علم و فضل کے والہ و شیدا، اصحابِ قرطاس و قلم اور اربابِ فکرونظر کے از حد قدردان، ادبی زندگی جن کے لیے مایۂ اِفتخار، خُلق و مُروّت کے پیکر، کسی کا دِل توڑنا جن کی فطرت سے خارج، ہر طبقۂ زندگی سے تعلّق رکھنے والوں اور ہر طرح کی طبیعت کے مالک افراد کو مائل بہ کرم کرنا اُن کی خصوصی مہارت، کثیر المشرب، قلیل الھیجان، حوصلے جن کے کبیر، ہو سہائے نفسانی جن کے صغیر، مہرو اُلفت اور جذباتِ بے پناہ میں گرمی، جوشِ بے محابا میں بڑی سردی، انتھک اور وَلولہ انگیز نوجوان، شرافت اور وصنعداری کے پُتلے، جدید ترین رجحانات کا نمایندہ ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم ترین روایات کے پختہ علم بردار، الواعظ مگر ادب و اخلاقیات، پیار، محبت، وفا اور اِنسان دوستی کے۔

شاعر مگر بے شعور اور ناآگاہ قابلِ رحم افراد میں شعور و آگہی اور دانائی کے لعل و جواہر کی افزائش کے لیے۔ نثرنگار مگر ابلاغِ خیروبرکت، ترسیلِ اسرار و رموزِ زندگی اور بندگ ئی خالقِ ذوالجلال کی خاطر۔ اعلیٰ منتظم، گہر بار مقرّر، بہترین دوست، اچھے معاشرتی فرد اور خوبصورت اُمنگوں سے بھرپور پیارے پیارے اِنسان۔ یہ ہے عبدالکریم کریمی کا مختصر شخصی خاکہ اور اُن کے سراپا کا خلاصہ۔

راقم ایک عرصے سے اوّلاً ہفت روزہ پھر روزنامہ ”بادِ شمال“ میں مسلسل اور دیگر اخبارات میں گاہے بہ گاہے چھپنے والے اُن کے متفرق عنوانات پر مشتمل مضامین پڑھتا رہا تھا۔ اِس حوالے سے غائبانہ سرسری تعارف تھا۔ پھر یہ ہُوا کہ اگست 2007 ء میں ایک دن اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ریسور اُٹھا کر جب استفسار کیا گیا تو ایک سُریلی آواز گونجی۔ اِس صدائے کوئل سے جواب آ رہا تھا جناب! میں عبدالکریم کریمی ہوں۔ میں نے فوراً تصدیق مانگی کہ اچھا آپ وہی عبدالکریم کریمی تو نہیں جو ”بادِشمال“ کے لیے ”فکرونظر“ کے عنوان سے کالم لکھتے رہتے ہیں؟

انہوں نے جی ہاں! جی ہاں! فرما کر میری پُرسش کی تائید کی۔ سلام و دُعا اور تعارفی تبادلۂ خیالات کے بعد مُدّعا بیان کرتے ہُوے وہ فرمانے لگے ”پروفیسر صاحب! خارزارِ نثر کا ایک عرصے سے راہی ہوں جبکہ گلستانِ نظم کا نووارد ہُوں۔ ماض ئی قریب میں جو کچھ مشقِ سخن کی ہے اُس کا مجموعہ چھاپنے کا خواہشمند ہوں۔ ایک عدد کمپوز شدہ مسوّدہ اگر اِجازت ہو تو آپ کی خدمت میں ارسال کروں، ایک ماہ بعد حاضر خدمت ہوکر آپ سے لے لوں گا۔

بس یہی گذارش ہے کہ از اوّل تا آخر نظرِمرحمت فرما کر ادبی فروگذاشتوں اور فنّی درماندگیوں کا ازالہ فرما کر نوک پلک سنوار دیجیئے گا۔ ”راقم نے جواباً عرض کیا“ بہ سروچشم! ”چند دنوں کے بعد مسوّدہ پہنچا۔ وعدے کی تعمیل بھی ہوگئی۔ ایک ماہ بعد ستمبر 2007 ء میں وہ خود بلتستان پہنچے۔ ملاقات کے لیے گھر تشریف لائے۔ راقم نے عشائیہ کے لیے وقت نکالنے کی درخواست کی۔ خلوص کو کیسے ٹھکرایا جاتا، انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ دعوت قبول کی۔ چند ادبی دوستوں کے ساتھ راقم کے گھر میں عشائیہ کی محفل جم گئی۔ بہ فرمانِ غالب

سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مُصوّری

تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے

رات گیے تک محفل سجی رہی۔ اِس دوران فوٹو گرافی کے کئی دور ہُوے۔ گلگت بلتستان کے ادبی منظر نامے کی باتیں ہُوئیں۔ یہاں کی ادبی انجمنوں کے تذکرے چھڑے، ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں کا ذکر ِ خیر ہُوا، گلگت بلتستان سے چھپنے والے اخبارات اور علمی و ادبی کتابوں پر نقد و تبصرے ہُوے، درمیان درمیان میں کئی مختصر مشاعروں کا سماں بھی باندھا گیا، نجی مصروفیات اور ادبی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ اس پہلی ہی ملاقات میں کریمی صاحب کی عادات و اطوار، نفسیات و مزاج، نجی زندگی کی سرگرمیوں، مستقبل کے روشن امکانات، ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر عالم شباب اور بچپن کی اٹھکھیلیوں پر مشتمل اُن کی تمثیلانہ زندگی، علمی و ادبی رجحانات و میلانات اورسعی و کوشش کی نہ ختم ہونے والی طویل راہوں کو واضح طور پر محسوس کیا تھا۔

وہ اُس وقت بھی مُجرّد زندگی گذار رہے تھے اور اِس وقت بھی تنہا زندگی گذار رہے ہیں یہ اور بات ہے کہ غالب نے فرمایا ہے

ہے آدمی بجائے خود اِک محشرِ خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

بابائے اُردُو مولوی عبدالحق نے بھی تادمِ مرگ شادی نہیں کی تھی۔ ایک دن کسی دوست نے اُن سے پوچھا کہ ”مولوی صاحب! آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟ “ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ ”کون کہتا ہے کہ میں نے شادی نہیں کی ہے۔ “ دوست نے حیرانی کے عالم میں پھر پوچھا ”تو آپ نے کس سے شادی کی ہے؟ “ مولوی صاحب نے کہا ”جناب میں نے اُردُو زبان کے ساتھ شادی کی ہے اب آئی بات سمجھ میں؟ “ دوست نے خاموش ہوکر تائید کی۔

اِس میں کیا شک ہے کہ واقعاً شادی ایک زنجیر ہے۔ غالب فرماتے ہیں :۔

”بیوی کی مثال بیڑی کی ہوتی ہے۔ شادی شدہ گھر کی مثال زندان کی ہوتی ہے اولاد کی مثال ہتھکڑیوں کی ہوتی ہے۔ معاش کی فکر جیل میں مشقّت کے نام سے دیے جانے والے سخت مشکل کام کی سی ہوتی ہے۔ بھلا ایسے میں تخلیقِ علم و ادب اور فکرِ نظم و نثر کیسے ہو سکتی ہے۔ “ خود غالب فرماتے ہیں

فکرِ دُنیا میں سر کھپاتا ہوں

میں کہاں اور یہ وبال کہاں

لیکن کریمی صاحب نہ تو مولوی عبدالحق ہیں اور نہ ہی غالب۔ اُنہیں شباب کی رنگینیوں اور جوانی کی بہاروں سے لطف اندوز بھی ہونا ہے۔ گلزاروں کے رنگ برنگے پھولوں کے بھرپور گیت بھی گانے ہیں۔ مولوی عبدالحق شاعر نہیں تھے اِس لیے وہ فطرت کے حُسن و جمال اور لطیف جذبات و احساسات کی پروا کیے بغیر ناز و ادا، غمزہ و عشوہ، خط و خال کی نزاکتوں، شکل و شمائل کی لطافتوں، گُل و بلبل کی سرگوشیوں اور راز داریوں نیز لب و رُخسار کی جلوہ سامانیوں سے دُور اور بہت ہی دُور رہے وگرنہ راقم کے اِس شعر کے بموجب

دِل والوں کے دِل کو تڑپانے کے لیے

رُخساروں پر تل کے دانے ہوتے ہیں

وہ کبھی مُرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہے ہوتے اور کبھی قیسِ عامری کی صورت میں دشت نوردی کر رہے ہوتے۔ جبکہ غالب غم روزگار کو سہنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ اُن کی آزاد روی اُن کے لیے بوجھ ثابت ہوگئی۔

عبدالکریم کریمی ایک حساس اِنسان ہیں، جوانی کے تاج محل کے زینوں کو بڑی تیز رفتاری کے ساتھ وہ ابھی طے کر رہے ہیں۔ اُن کے سینے میں دھڑکتا ہُوا دِل ہے کوئی سنگ و خشت نہیں گویا غالب کا یہ شعر اُن پر منطبق ہوتا ہے

دِل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

میرے خیال میں دوسرا مصرع کریمی پر منطبق نہیں ہوتا کیونکہ اُنہیں خوش کرنے والے تو بہت سارے ہوں گے اور ستانے والا شاید کوئی نہ ہو۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3