اس قوم کو سوچ بڑی کرنے کی ضرورت ہے


بہار میں کھلے شوخ رنگوں والے پھول، چہکتے حسین پرندے، ہرے نیلے اور سرمئی رنگ والے پانی کی ندیا، بانسری کی آواز، کلائیوں میں کھنکتی چوڑی اور گلے سے ابھرتی آواز پر ہوا کے سنگ اڑتا کوئی آنچل۔ کیا یہ سب الفاظ سوچ کو خوشگوار کرتے ہیں؟

طنز، تنقید، نقطہ چینی، تنگ نظری، گھٹن، نفرت، غصہ، نا اہلی، بدکرداری، حسد، غلاظت۔ کیا یہ تمام الفاظ دماغ کو ایک ناخوشگوار تاثر دیتے ہیں؟

اگر میری ان دونوں باتوں کا جواب ہاں ہے۔ تو خود ساختہ مسلط کی گئی دماغی بیماری کا شکار کیوں ہے پاکستانی قوم؟ خوشگوار زندگی کے لئے گر رنگ ضروری ہیں، ادب، فنون لطیفہ، اداکاری، موسیقی جو روح کی غزا ہے تو سوشل میڈیا پر اداکارہ مہوش حیات کو ملنے والے تمغہ امتیاز کو لے کر اتنا ہنگامہ کیوں۔

کبھی اداکارہ کی تصویر قومی ہیرو کے ساتھ جوڑ کر تمسخر کیا جاتا ہے؟ کبھی حکومتی عہدیداران کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ ایک بات بتائیے۔ اگر کوئی کھانا اچھا پکاتا ہے تو اس کو اس ہنر کے لئے چنا جائے گا اور اگر کوئی گانا اچھا گاتا ہے تو اسے اس کے فن میں داد دی جائے گی۔

اتنی سی بات قوم کیوں نہیں سمجھ پا رہی کہ مہوش حیات کو تمغہ امتیاز بارڈر پر کھڑے ہو کر جنگ کرنے کے لئے نہیں دیا گیا۔ نہ ہی مسجد میں امامت کروانے پر دیا گیا ہے۔ کیا ویڈیو میں صاف الفاظ ہماری عوام تک نہیں پہنچے؟ کہ یہ تمغہ امتیاز فن اداکاری کے لئے دیا گیا ہے؟

پھر قومی ترانے اور پاکستانی پرچم کی تصویروں میں اداکارہ کی تصویروں کو مذاق کا نشانہ بنا کر ہم درحقیقت اپنی ذہنی پستی دکھلا رہے ہیں۔ جو قومیں رنگوں کو اہمیت دینا چھوڑ جاتی ہیں جو مذہب کے نام پر تنفر کا شکا ہو جاتی ہیں، جو فن اور روح کی غذا کو ترک کر دیتی ہیں وہاں نتیجے میں دھماکے، نشے، زینب کیس، قتل اور بدکاری ہی سامنے آیا کرتی ہے۔

جب ہم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود کسی کی ترقی پر حسد کرنے لگیں تو ہم بحیثیت قوم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

غصے اور نفرتوں کے لئے ہزار باتیں ہیں جو ہر وقت ہمارے اردگرد میسر ہوتی ہیں مگر اپنے اندر محبتوں کو رنگوں کو ٹٹولنا ہم چھوڑ چکے ہیں۔ گائیکی، اداکاری، ہر دور میں امن کا پیغام رہا ہے۔ اداکار محنت کر کے ہمیں ہنساتے ہیں۔ ہم دفاتر سے آنے کے بعد گھر میں لڑنے کے بعد، دوستوں کے ساتھ انجوائے کرنے کے لئے۔ اپنا ذہن انہیں ہی دیکھ کر بدلتے ہیں۔

اگر آج ہم اس بات پر انگلی اٹھانے لگے ہیں کہ ہمارے ملک میں اداکارہ کو تمغہ امتیاز کیوں دیا گیا۔ تو کل ہم یہ کہین گے کہ ہمارے ملک میں فن اداکری اور موسیقی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پھر ہم کہیں گے کہ اس ملک میں غیر مذہب لوگوں کو اپنے تہوار منانے کی آزادی نہیں ہے۔ اور پھر ہم یہ خود ہی مان لیں گے کہ اس ملک میں موجود مسیحی، ہندو یا کسی بھی غیر مذہب کو قتل کرنا ثواب ہے۔ اس کے بعد ہمیں اسلام میں موجود مختلف فرقوں سے نفرت ہو جاءئے گی اور ہم سب تلواریں لے کر ایک دوسرے کے خون میں رنگے جائیں گے۔

کیونکہ ہمارے دماغ ہم خود گھٹن اور نفرت کا گھر بنا رہے ہیں۔ نماز پڑھنا تلاوت کرنا اچھی بات ہے مگر جب مسجدوں میں بیٹھا ملا یہ سکھانے لگے کہ لوگو لوٹ آؤ رب کی طرف اور عورت کی محبت ترک کر دو تو ہم یہ سوال کیوں نہیں پوچھ پاتے کہ اللہ کی محبت سکھانے والے اور خود اللہ کی پہچان کروانے والے آخری نبی صہ کا اپنی زوجہ کے ساتھ کیا سلوک ہوا کرتا تھا؟ کیا محبت کا درس ہمیں وہاں سے نہیں ملا؟ کیا عورت کو عزت احترام کا سبق انہوں نے نہیں دیا؟

کون سا دین ہے جو کہتا ہے کہ دوسروں کو حقیر جانو؟ کون سا ملا ہے جو آپ کو گارنٹی دیتا ہے کہ آپ جب ایک ہزار غیبت، تہمتیں اور بہتان باندھنے کے بعد سجدہ کرتے ہین تو وہ قبول ہوتا ہے؟ انسانی خون بہانے پر جنت کا ٹکٹ مل جاتا ہے۔ یہ وحی نعوژباللہ کب اور کہاں نازل ہوتی ہے؟

ہم رنگوں کو چھوڑ کر اپنوں کو چھوڑ کر نفرتوں کو لے کر غصے کو بھر کر کہاں جا رہے ہیں؟ کیا ہم خود خوش ہیں؟ ذرا سوچیئے۔ ۔

ذہنی پستی کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ محبتوں کو جگہ دیجیئے اور وہ دل بڑا کرنے سے نہیں سوچ بڑی کرنے سے خیال میں وسعت لانے سے ہی آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).