عورت کو پہلے عورت ہونے کا حق تو دو


ویسے تو آج کل خبریں پڑھنا یا دیکھنا ویسے ہی دل گردے کا کام ہے لیکن کبھی کبھی کوئی خبر ایسی نگاہوں کے سامنے سے گزرتی ہے جولمحے بھر کو خود کو کافی بے حس سمجھنے کے باوجود آنکھوں کا پردہ ایک ثانیے کو دھندلا کردیتی ہے۔ آنکھوں میں آنے والی یہ نمی چند لمحے کو یہ احساس دلاتی ہے کہ اس دنیا میں کچھ انسانوں پر دوسرے انسان زمین کس قدر تنگ کردیتے ہیں کہ وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی موت کی تمنا کرنے لگتا ہے ایسے میں پھر یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں خود کشی کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

بہرحال فی الحال ہمارا مقصد تحریر خودکشی کے واقعات میں اضافہ نہیں بلکہ ایک عورت کے عورت ہونے کی داستان بے بسی پر سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑنا ہے کہ شاید کسی کے دل مین میری بات اترے اور کہیں کوئی شبنم کے قطرے جتنا ہی کوئی فرق تو آئے۔ خبر یہ تھی کہ بیوی کو دوستوں کے سامنے رقص پر مجبو ر کرنے والا شوہر گرفتار کرلیا گیا۔ خبر یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ظلم کی داستان کا یہ تو آغاز تھا۔ شوہر روزانہ بیوی کو دوستوں کے سامنے رقص کرنے پر مجبور کرتا تھا تاہم ایک روز بیوی کے انکار پر ناصرف اس پر تشدد کیا بلکہ اس کے بال ہی مونڈھ ڈالے۔

قصہ مختصر شوہر ابھی تک گرفتار ہے لیکن کیا گارنٹی ہے کہ انصاف سے بھرپور اس معاشرے میں ایک ظالم شخص کب تک جیل کی سلاخوں کے پہچھے رہ پائے گا۔ جبکہ دوسرے جانب مقابلہ پر ہے ایک کمزور عورت جس کے پاس نہ خاطر خواہ تعلیم ہے، نہ ہی اس کے والدین یا کوئی بہن بھائی ہیں جو اس مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑے ہوکر اس کو جذباتی اور مالی سہارا دے سکیں ایسے میں ایک عورت کہاں تک اور کیونکر اپنا مقدمہ لڑ پائے گی۔ جبکہ دوسرے جانب اس کو سر چھپانے کے لیے محفوط ٹھکانہ بھی درکار ہوگا جہاں کوئی درندہ اس کی طرف بڑھنے کا خیال بھی دل میں نہ لاسکے۔

ایسے میں ایک عورت کو شاید اسی میں عافیت نظر آئے کہ مقدمہ ختم کرو اوراپنی جان بخشی کراؤ۔ اس صورتحال میں ہمیں یہ یقین واثق ہے کہ ملک میں کام کرنے والی کئی اچھی این جی اوز اس معاشرے کی ستائی عورت کی داد رسی کے لیے آگے آئیں بلکہ تادم تحریر آبھی چکی ہوں گی لیکن یہ کہانی یہاں ختم تو نہیں ہوتی ایک عورت کی داستان اگر یہ ہوتی تو اس کا مسئلہ حل کرکے شاید سکون کا سانس لیا بھی جاسکتا تھا لیکن کیا کیجیے کہ یہ کہانی نجانے ہمارے معاشرے کی کتنی ہی خواتین کی داستان غم ہے جو روز حیلوں بہانوں سے دہرائی جاتی ہے کہیں عورت کو رقص پر مجبور کیا جاتا ہے تو کہیں عورت کو تفریح کے مختلف ذریعوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے مگر ظلم کی چکی میں پستی یہ عورتیں جن کی روح اس عذاب سے کتنی ہی مجروح کیوں نہ ہو چکی ہو، آواز اٹھا نے کی ہمت اب بھی نہیں کرتیں کہ کبھی ہمت کی کمی، کہیں وسائل کی تو کہیں پشت پر کسی مرد کے مضبوط سہارے کی کمی۔

ایسے اور نجانے کتنے ہی عوامل ان خواتین کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رکھتی ہیں۔ جن کی وجہ سے ایک عورت ظلم کی چکی میں پستے رہنے کو ہی اپنا مقسوم بنا لیتی ہے اور کہیں کسی سے داد رسی کی فریاد کرتی ہے نہ کوئی ایسی امید رکھتی ہے۔ یہاں ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ کیا عورت کو صرف عورت کی حیثیت سے جینے کا حق نہیں دیا جاسکتا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ عزت اور تحفظ حاصل کرنے کے لیے مرد کا نام ساتھ ہو؟ کسی کی بیوی، کسی کی ماں کسی کی بہن ہونا کیوں اس معاشرے میں عزت و تحفظ حاصل کرنے کے پیمانے ہیں۔ اگر ایک عور ت کے پاس ان میں سے کوئی سرٹیفیکیت نہیں تو یہ معاشرہ کیوں زمین تنگ کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ اگر ایک عورت خود کفیل ہے تو بھی یہ معاشرہ اس کو شک کی نگاہ سے ہی کیوں دیکھتا ہے۔

کیا آج بھی اکیسویں صدی میں ہمارا معاشرہ ایک عورت کو عورت ہونے کی حیثیت سے عزت نہیں دے سکتا کیا آج بھی ایک عورت کو خود کو محفوظ سمجھنے کے لیے مرد کا سہارا ہی درکار ہے کیا آج بھی ایک ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینے کے لیے اکیلی عورت کا لیبل کیس کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے؟ ۔ یہ ہی نہیں عورت مارچ اور عورت کے حقوق کی جنگ کو مذاق بنادینے والے لوگ بھی کہین نہ کہیں اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو عورتوں کی ان کے حقوق کے لیے آواز ببی نہیں اٹھانے دیتے بلکہ ان کے خلاف دیوار بن جاتے ہیں۔ ایسے اور بھی نجانے کتنے سوالات ہیں جن کا جواب آج بھی ہمارے پاس نہیں۔ آج بھی ایک عورت کی سوالیہ نظریں معاشرے کے نام نہاد ٹھیکیداروں پر ٹکی ہیں کہ ہے کوئی مسیحا جو حوا کی بیٹی کو ان مسائل سے نجات دلاسکے۔ ہے کوئی زمانے کا موسی جو فرعونیت کو اس کے انجام تک پہنچا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).