ڈاکٹر ذاکر نائیک پر عطیات میں چار ارب روپے کے غبن کا الزام


منی لانڈرنگ اور مالیاتی جرائم کی تحقیقات کرنے والے بھارتی ادارے ڈائریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ نے جو وزارت خزانہ کے تحت کام کرتا ہے، نے یہ انکشاف کیا ہے کہ مفرور قرار دیے گئے مشہور اسلامی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ملکیت میں ایک ارب 93 کروڑ بھارتی روپے (تقریباً چار ارب پاکستانی روپے) کے کالے دھن کے اثاثہ جات ہیں۔ ان میں ممبئی اور پونا کے بیس فلیٹ اور بینک بیلنس بھی شامل ہے۔ ادارے کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یہ اثاثہ جات اسلامی ممالک سے مسلمانوں کے لئے وفاہی سرگرمیوں کے لئے دیے گئے عطیات کو خورد برد کر کے بنائے۔

ڈائریکٹوریٹ نے جمعے کے روز ان کے قریبی ساتھی نجم الدین سیٹھک، جو ایک جیولر ہیں، کو گرفتار کر لیا۔ ان پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لئے منی لانڈرنگ کرنے اور دبئی سے نفرت اور انتہاپسندی پھیلانے کے لئے مشکوک ذرائع سے 79 کروڑ بھارتی روپے کے فنڈ حاصل کرنے کا الزام ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جلد ہی چارج شیٹ فائل کر دے گی۔ اس نے 51 کروڑ بھارتی روپے کے اثاثہ جات، جن میں مختلف جائیدادیں اور میوچل فنڈز شامل ہیں، کی فہرست مہیا کر دی ہے۔ اس سے پہلے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ایک اور ساتھی عامر گزدار کو اس الزام میں گرفتار کر لیا تھا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لئے منی لانڈرنگ میں مدد دیتے ہیں۔

ڈائریکٹوریٹ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ادارے کو مشکوک ذرائع سے عطیات حاصل کرنے اور انہیں جائیداد خریدنے کے لئے استعمال کیا۔

ملزم نے امارات، سعودی عرب، بحرین، کویت، عمان اور انڈیا سے 2004 سے لے کر 2017 کی مدت کے دوران 65 کروڑ بھارتی روپے کے عطیات حاصل کیے۔ یہ رقم ڈاکٹر ذاکر نائیک کی والدہ، والد اور بہن کے بینک اکاونٹس کے ذریعے ادھر ادھر کی گئی۔ اس رقم کا منبع نامعلوم ہے۔

بھارتی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے چینل پیس ٹی وی پر 2012 سے پابندی لگا رکھی ہے۔ جولائی 2017 میں بھارتی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا پاسپورٹ اس الزام پر منسوخ کر دیا کہ وہ دہشت گردی سے لنک رکھتے ہیں۔ بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن اور پیس ٹی وی مبینہ طور پر مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے بھارتی پاسپورٹ کی منسوخی کے بعد ملائشیا میں مستقل رہائشی ویزے پر مقیم رہے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق انہیں سعودی عرب نے 2017 میں اپنی شہریت دے دی ہے لیکن اس کی کبھی بھی سرکاری طور پر تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے سنہ 2017 میں ایک کھلے خط کے ذریعے بھارتی پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”یہ صرف مجھ پر حملہ نہیں ہے، یہ بھارتی مسلمانوں پر حملہ ہے۔ یہ امن، جمہوریت اور انصاف پر حملہ ہے“۔

نیوز ویب سائٹ ٹوسرکلز کے ایڈیٹر کاشف الہدی ان سے متفق ہوتے ہوئے کہتے ہیں ”ڈاکٹر ذاکر نائیک کے چند بیانات پریشان کن ہیں، اور ان کا انداز مخالفت پر مبنی ہے، لیکن انہوں نے کبھی بھِی تشدد کی حمایت نہیں کی۔ “

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لئے مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ کے ایک ریستوران پر حملہ کر کے 22 افراد کو قتل کر دینے والے مجرم کے متعلق بنگلہ دیشی حکومت نے یہ کہا تھا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر تھا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش نے پیس ٹی وی پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد انڈیا نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔
ماخذ: ٹائمز آف انڈیا اور الجزیرہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).