ملتان کی محبتیں


لاہور سب کے دل میں بیٹھا ہوتا تھا۔ کہیں گورنمنٹ کالج لاہور کے بارے میں پڑھ لیا تھا تو وہاں داخل ہونے کی ضد کر بیٹھا تھا۔ علی پور ضلع مظفرگڑھ جیسی دور افتادہ بستی سے لاہور پہنچا۔ جیسی کے اقبال ہوسٹل میں رہتے ہوئے گھر کی بندھن والی فضا سے نکلا تو دو کام کرنے شروع کیے پہلا صبح دوپہر شام فلمیں دیکھنا اور دوسرا عشق کے بارے میں قطعی انجان ہوتے ہوئے عشق کر بیٹھنا، وہ بھی جوانی کا۔ بڑی کوشش رہی کہ کم نمبر آئیں ‌تو لاہور میں ہی بی اے ایم اے وغیرہ کرلوں مگر اردو اور انگریزی مروا گئیں کہ نمبر پھر بھی اتنے آ گئے کہ میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے۔ زمانہ ٹیگ سسٹم کا تھا، اسی علاقے کے میڈیکل کالج میں داخلہ ملتا جہاں کا آپ نے ڈومیسئل لیا ہوتا۔ اتنی عقل نہیں تھی نہ کسی نے مشورہ دیا کہ ڈومیسائل تو بہن کے گھر لاہور میں بھی بن سکتا تھا، تھوڑی سی بددیانتی کرکے۔ یوں مجھے نشتر میڈیکل کالج ملتان میں داخل ہونا پڑا تھا۔

باوجود سات سال ملتان میں بسر کرنے کے، اس عرصے میں بطور کپتان ملتان میں پوسٹنگ کا دورانیہ بھی شامل ہے، ملتان کبھی نہیں بھایا تھا۔ اب کی بار میں پانچ روز ملتان میں بتا کر آیا ہوں تو ملتان بہت اچھا لگا ہے، کراچی کیا لاہور سے بھی زیادہ۔ لاہور میں تو میٹرو بس کی راہ نے وہاں کے حسن کو دھندلا دیا یا ہے اس کے برعکس ملتان کی سڑکوں کے حسن کو اجاگر کر دیا ہے، شاید سونے پر سہاگہ تجاوزات ہٹایا جانا رہا۔

ملتان سے دو دعوتیں تھیں ایک محترم رانا محبوب صاحب کا مجھ سے ملنے کا تقاضا اور دوسرے ہم جماعت ڈاکٹر احسان جسے ہم سب مولوی احسان کہتے ہیں کا ہم جماعتوں کے ساتھ وقت بتائے جانے کی حکم نما آرزو۔ کار تو مجھ بیکار شخص کے پاس ہے نہیں مگر دو بار احسان سے ملاقات دوستاں کو منسوخ کرانے کے بعد مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ تیسری بار ملتوی کیے جانے کی جرات کرتا چنانچہ بھتیجے خبیب مرزا کی مدد سے ”یورو“ کہلائی نسبتاً بہتر خیال کی جانے والی وین میں بیٹھ گیا۔

پتہ نہیں اسے یورو کیوں کہا جاتا ہے؟ معلوم ہوا اس لیے کہ ایک تو ڈرائیور کی نشست کے پیچھے نشست نہیں بنائی جاتی دوسرے اے سی ہوتا ہے۔ نشست نہ لگانے کا جو احسان کیا گیا تھا وہ اتنا سا کہ سامنے بٹھائے جانے والوں کی ٹانگیں نہ پھنسیں مگر جگہ اتنی نہیں تھی کہ گھٹنے چند منٹ بھی سکون سے رکھے جا سکتے۔ چار کے لیے مختص سیٹ پر کہہ کہلا کے ہم صرف تین بیٹھے مگر ملتان تک پہنچتے پہنچتے ٹانگیں اینٹھ گئیں۔ اے سی تو خیر کام ہی نہیں کرتا تھا، مزیدار بات یہ کہ کرایہ عام وین سے ایک سو روپے زیادہ۔

نہ جانے پبلک ٹرانسپورٹ وہیکل ایگزامینر کس مرض کی دوا ہے کہ دیکھتا ہی نہیں۔ ہر وین سے فیکٹری فٹڈ نشستیں ہٹا دی جاتی ہیں اور ان کی جگہ انتہائی غیر آرام دہ مقامی طور پر بنی نشستیں نصب کرا دی جاتی ہیں تاکہ چھ اضافی نشستیں ہو جائیں۔ لوگ جائیں بھاڑ میں۔ سفر آرام دہ ہو نہ ہو حکومت کی بلا سے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کم فاصلے کی سواریوں کو سہولت ہوتی ہے اور کرایہ کم ہو جاتا ہے۔ مزاج بنانا پڑتا ہے، فیکٹری میں نصب شدہ نشستوں کی مناسبت سے کرایہ رکھا جائے تو لوگ اسی کرائے کے عادی ہو جائیں گے۔ آخر بڑے شہروں کے درمیان پہلے ڈائیوو والوں نے بہتر سفری سہولت کا مزاج بنایا تو اب فیصل موورز سامنے آ گئے ہیں۔

پہلے روز قیام رانا محبوب صاحب کے ملتان میں پڑاؤ کے لیے مختص ان کے بنگلے کے مجہز کمرے میں ہوا۔ اس سے پہلے رانا صاحب اپنی نئی بی ایم ڈبلیو جیپ میں مجھے اور میرے بھتیجے کو رونق نام کے ریستوران لے گئے جہاں رانا صاحب کے دوستوں نے عشائیہ دیا ہوا تھا۔ پروفیسر اے بی اشرف کے فرزند جناب نعیم اشرف میزبانی میں پیش پیش تھے۔ محفل تو اچھی تھی ہی اور کھانے کی مقدار اتنی کہ بھنے ہوئے گوشت کے طشت کے طشت بھرے آتے رہے۔

رانا صاحب سے پہلی ملاقات تھی اور مقام بالکل نیا، نیند آ کے نہ دی البتہ صبح کو پہلے پھولوں والے سبز لان میں اور پھر ڈرائنگ روم میں رانا صاحب کے عالمانہ خیالات سننے کا موقع میسر آیا۔ رانا صاحب فوری طور پر دل میں گھر کر جانے والی شخصیت ہیں کیونکہ عالم ہیں اور دنیا دار ہونے کے ساتھ ساتھ درویش صفت بھی۔ ان کو کہیں جانا تھا مگر ان کا کہنا تھا کہ کمرہ حاضر ہے جب تک چاہے رہیں۔

ان کی نوازش سے تو انکار نہیں تھا مگر ملتان میں میرا ازلی میزبان ڈاکٹر اعجاز بلو لاہور سے لوٹ آیا تھا، اس لیے رانا صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ رانا صاحب کے پڑاؤ سے پہلے سڑک پر ان کا شیل پٹرول پمپ ہے جبکہ سڑک کے اس طرف میرے ہم جماعت تبلیغی جماعت کے لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ ڈاکٹر محمد اقبال قاضی ماہر امراض چشم کا کلینک۔ میں اپنے بیک بیک کے ساتھ ساڑھے بارہ بجے ان کے کلینک چلا گیا۔ ہم عمر ہونے کے باوجود وہ جوانی کی طرح ہی مستعد ہیں۔ اپنے چھوٹے سے کلینک میں بھرے مریضوں کو بہت توجہ اور پیار سے دیکھتے ہیں، سپیشلسٹ ہوتے ہوئے بھی صرف تین سو روپے فیس لیتے ہیں اور مستحق کو معاف بھی کر دیتے ہیں۔ سیمپل ادویہ مریضوں میں بانٹتے رہتے ہیں۔

اقبال کے ہمراہ گلگشت میں واقع ریستوران ”ٹیسٹی“ پہنچے جہاں ڈاکٹر اکبر سعید، آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر اقبال، ڈاکٹر خالد راؤ، ڈاکٹر احسان کے علاوہ ایک اور ہم جماعت بھی موجود تھے جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا تھا وہ ڈاکٹر سبطین تھے۔ کچھ دوست بوجوہ نہیں آ سکے تھے۔ ڈاکٹر احسان نے کھانے کا آرڈر دیا ہوا تھا اور میز پر کڑاہی کے بعد کڑاہی سجتی رہی۔ مناسب مقدار میں نمک کالی مرچ کے ساتھ کڑاہی گوشت اس قدر لذیذ تھا کہ مجھ سمیت سب نے زیادہ کھایا اور پھر بھی بچ رہا۔

اس دعوت کے بعد سٹیٹ بینک ملتان کی افسر حرا ایمان کی جانب سے دعوت تھی۔ میں نے انہیں مشکل سے چائے پلانے پر رضامند کیا کیونکہ وہ کھانا کھلانے پر مصر تھیں۔ ساڑھے چار بجے وہ مجھے لینے پہنچ گئیں۔ ان کے اور ان کی چھوٹی بہن ردا ایمان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر تھوڑی ہی دور ایکس ٹو نام کے وکٹورین سٹائل کے بہت آرام دہ ریستوران میں ہم ”ہائی ٹی“ کے لیے پہنچے۔ ردا اتنی چھوٹی سی معصوم بچی لگ رہی تھی کہ مجھے حرا سے پوچھنا پڑا کہ کیا باتیں کھل کے ہو سکتی ہیں۔

اس نے ہنس کے کہا کہ یہ چھوٹی نہیں اور بہن کے علاوہ میری اچھی سہیلی بھی ہے۔ حرا میری فیس بک فرینڈ ہیں اور پہلی بار ملے تھے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اڑسٹھ برس کا شخص جوان لڑکیوں کے ساتھ کھل کر گپ لگاتے ہوئے کتنا آسودہ ہو سکتا ہے۔ حرا کو کھانا کھلانے سے اس لیے روکا تھا کہ آج رات کا کھانا شاہد مبشر کے ہاں تھا جن کا گھر چند قدم پر تھا۔ لڑکیاں مجھے چھوڑنے کے لیے کریم ٹیکسی آرڈر کرنے کو تھیں کہ میں نے کہا پیدل چلتے ہیں، ساتھ ہی تو ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم تو پیدل نہیں چلا کرتے مگر میں نے چلا دیا اور شاہد مبشر کے ہاں پہنچ کے وہ لوٹ گئیں۔

ملتان پہنچتے ہی میں شاہد مبشر کے ہاں گیا تھا۔ شاہد مبشر نے ایک معمولی سے ریستوران پر مجھے دال روٹی کھلا کے اور چائے پلا کے اگلے روز گھر پہ رات کا کھانا کھانے مدعو کیا تھا۔ میں شاہد مبشر سے 45 برس بعد اور اس کی معرکۃ الآراء کتاب ”قصہ جن پری کا“ دیکھنے کے بعد ملا تھا اس لیے پہلے ہی روز کہا کہ مجھے تب کے بعد سب کچھ بتاؤ جب تم نے دوسرے سال میں ہی میڈیکل کالج کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ اس نے بہت کچھ بتایا بھی بہت کچھ کو فلسفیانہ باتوں میں ٹالا بھی اور پھر ہنس کے کہا کہ تم میرے بارے میں انویسٹیگیشن کرنے پہنچے ہو کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد مجھے فیس بک پر کہہ چکے تھے کہ شاہد مبشر سے ملاقات ہو تو مجھے بھی بلا لینا جب میں نے شاہد مبشر سے فون پر اس بارے میں کہا تو اس نے بتایا کہ وہ انوار صاحب کو پہلے ہی فون کر چکا ہے۔ انوار صاحب کے آنے سے پہلے شاہد کی مزید اچھی باتیں سنیں مگر اس نے کوئی بات عام کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی کہی باتیں اس کی ہیں اور اس کے ہی خیالات بارے ہیں۔ خیر انوار صاحب آئے تو انہوں نے مستنصر تارڑ کا ذکر کرکے شروع کرتے ہوئے ادبی معلومات کے در وا کر دیے۔ انوار صاحب اب مجھ پر منکشف ہو گئے تھے۔

مجھے لینے ڈاکٹر اعجاز نے آنا تھا۔ وہ بھی کھانے میں شامل ہو گیا۔ مسز شاہد مجھ سے معذرت کرکے کسی خانگی تقریب میں چلی گئی تھیں مگر لذیذ ترین کھانے بنا کے رکھ گئی تھیں جو میں ‌نے بھوک نہ ہوتے ہوئے بھی کھا لیے۔ اعجاز نے بھی کھانوں کی خاص طور پر مغز کی بہت تعریف کی۔ میں اپنے دوست سید صابر حسین ہمدانی کے انتقال کر جانے کے بعد سے ملتان میں اعجاز کے ہاں رکتا رہا ہوں۔ اس بار اعجاز اپنی وسیع و عریض نئی تعمیر شدہ کوٹھی میں لے گیا جس کا چپہ چپہ اس کے اور اس کی اہلیہ کے ذوق کی نمائندگی کر رہا تھا۔

اعجاز مصر ہے کہ مرزا تم میرے ہاں مہمان نہیں ہوتے اور یہ تم بھی جانتے ہو۔ اس کا چھوٹا بیٹا ڈاکٹر محسن جو میڈیسن میں پوسٹ گریجویٹ ریزیڈنسی کر رہا ہے اسی کی طرح دوست نواز اور بڑوں کے لیے تابع فرمان ہے۔ اعجاز اپنے طور پر بہت زیادہ علم دوست اور زندگی گذارنے کے عملی فلسفے سے آشنا شخصیت ہے۔ اس سے باتیں کرنے میں ہمیشہ ہی لطف آتا ہے۔

اعجاز ایک سے چار اور مغرب کے بعد تین گھنٹے ای این ٹی کی پریکٹس کرتا ہے۔ اگلے روز میں نے اس سے کہا کہ مجھے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ہوسٹل میں چھوڑ دے۔ ایک اور فیس بک فرینڈ اور ایم بی بی ایس کے فائنل ایر کے طالب عکم کاشف رضا نے مدعو کیا ہوا تھا کہ کھانا مل کر کھائیں گے اور آپ کی نشتر میں تعلیم کی یادیں تازہ کروائیں گے۔

کاشف کو لکھنے کا شوق ہے۔ انگریزی میں ناول لکھنے کی سعی کر رہا تھا البتہ میں نے اس کا پہلا باب دیکھ کے اسے لکھنے سے پہلے جی بھر کے لٹریچر پڑھنے کی تلقین کی اور شام کو اپنے دوست آرتھوپیڈک سرجن اقبال سے اسے ”اداس نسلیں“ بھی اسے مستعار لے کے دیا۔ کاشف اپنے ہم کمرہ اور ہم جماعت طارق کے ساتھ مجھے پہلے ریستوران ”بندو خان“ لے گیا۔ کھانا مزیدار تھا مگر چائے بنانا عملے کو مجھے سکھانا پڑا تھا۔

کھانے کے بعد ان نوجوانوں نے مجھے نشتر کے روزی گارڈن اور گوگی گارڈن گھمائے۔ پروفیشنل کیمرے سے میری بہت سی تصویریں بنا کر مجھے تحفہ کیں۔ کھانے سے پہلے ”قاسم ہال“ نام کے جس ہوسٹل میں میں نے پانچ برس بتائے تھے، گھمایا۔ گارڈن بہتر ہوگئے ہیں جبکہ ہوسٹل بدتر اگرچہ آج طالبعلموں کے پاس جیسے کاشف کے پاس لیپ ٹاپ بھی ہیں اور کریڈٹ/ ڈیبٹ کارڈ بھی۔ ہم اپنے زمانے میں ادھار کے سگریٹ پیا کرتے تھے۔ موٹر سائیکل کسی کے پاس ہوتی تھی اب ہوسٹلوں کے سامنے کاروں کی قطاریں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).