فحاشی کالائسنس


گھر میں ہر طرف چہل پہل تھی کوئی ہسپتال جارہاتھا تو کوئی ہسپتال سے آرہا تھا۔ بے چینی وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی اور کیوں نہ بڑھتی آخر رئیس کے گھر پانچ سال بعد پہلے ننھے مہمان کی آمد تھی۔ رئیس کی ماں بڑے چاؤ سے اپنے بیٹے کی بے چینی دیکھ رہی تھی دل ہی دل میں خوش تھی اولاد کی اولاد ہونا شاید ہے ہی خوشی کی بات۔

انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ایک چاند سے بیٹے کی نوید گھر آئی خوشی نے بالآخر رئیس کی کواڑ بھی کھٹکھٹادی۔ پورا گھر رئیس کی خوشی میں خوش تھا۔ وقت کا پہیہ کھومتا رہا اور رئیس کا بیٹا چھ سال کا ہوگیا۔ خوب صورت معصوم بچہ سب کی نظروں کاتارا تھا۔ اب تو وہ گلی میں بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے نکل جاتا تھا۔

شاید غریب کابچہ گلیوں میں کھلتا ہے اس لیے بھی غیر محفوظ ہے۔

وہ شام شاید کسی کی زندگی کی بھی شام تھی اور وہ زندگی تھی رئیس کا بیٹا۔ معصوم سا بچہ جوکسی کی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد جھاڑیوں میں بھینک دیا گیا تھا۔ کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ اتنی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہونے والی اولاد یوں پلک چھپکتے میں اس دنیاسے کوچ کرجائے گی؟

آئے روز ہم یہ واقعات سنتے ہیں کبھی کوئی ریپ کرکے مار کر پھینک دیے جاتے ہیں اور جو جان سے نہیں مرتے وہ جیتے جی مر جاتے ہیں۔ کچھ اس عمل کے بعد خود کشی کرلیتے ہیں۔

یہ کہانی ہمارے معاشرے کا معمول ہے آپ چاہتے ہوئے بھی اس کو روکنے میں کامیاب نہیں ہورہے۔ کتنی معصوم بچے بچیاں جو تتلیوں کی طرح اڑتی بھرتی ہے ایک لمحہ ان کے رنگ چھین لیتا ہے۔

میں بے بس ہوں آپ بے بس ہیں اس شیطانی کام کو روکنے میں۔ کیا کریں کیسے اپنے بچوں کودرندگی سے روکیں۔

جس طرح شراب حرام ہے لیکن اس کے پینے والوں کے لئے لائسنس جاری کردیاجاتا ہے۔ اسی طرح معصوم کھلتے بچوں کی جان بچانے کے لئے فحاشی کالائسنس بھی ہونا چاہیے۔ فحاشی وہ جو دنیاکے ارتقاء کے بعد سے ہے اور آج تک موجود ہے جسے ختم کرنا ناممکن ہے آپ سخت سے سخت قانون بنا لیں اسے ختم نہیں کرسکتے۔

تو کم از کم اپنی اگلی نسل کوان غلیظ لوگوں کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لئے فحاشی کارنر بناکر اجازت نامے دے دیں۔
شاید کہ میری تحریر آپ کوپسند نہ آئے لیکن معاشرے کے اس ظلم سے بچنے کے لئے میرے نزدیک اس بیماری کاواحد حل یہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).