دنیا پتلی تماشا


جب کبھی بھی اس راستے سے گزر ہوتا تو مغرب کے بعد ہی دنیا خاموش دیکھا ئی دیتی۔ وہ دیکھو لگتا ہے کوئی جگں و جگمگا رہا ہے۔ دور مٹی کے ٹیلے پر لالٹین کی مدھم مدھم روشنی واقعی میں کسی جگنو کی چمک محسوس ہوتی تھی۔ کچے مکان بڑے بڑے درخت اور رات کے اوقات میں الو اور چمگادڑ کی آوازیں۔ یہ کس کا گھر ہے جو اتنا پرسکون ہے۔

بابا فضل ایک سکول میں اسلامیات پڑھتا تھا بہت ہی سادہ لوح اور رحم دل انسان، شاگرد بہت پیار سے بابا فضل سے پڑھتے کیونکہ اچھے کام پر بچوں کو کبھی میسی روٹی تو کبھی گڑ کی گچک انعام کے طور پر دی جاتی۔ وقت اپنی رفتار کے عین مطابق گزر رہا تھا۔ بابا فضل کی دو بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹے نما ہیجڑا، پیرو۔ پیار سے گھر کے سب لوگ اس کو پیرو کہتے۔ بیٹیوں کے بعد جب پیرو پیدا ہوا تو کچھ روز تک بابا فضل گھر سے باہر نہ نکلا پھر اچانک سے کہیں سے بات سنے کوملی کہ سنا ہے پتر ہوا ہے بڑے کنجوس ہو لڈو تو بانٹ دیتے آس پڑوس میں۔

اس دن پہلی بار بابا فضل کو احساس ہوا کہ اگر رشتے داروں اور محلے داروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنی ہے تو پھر فٹا فٹ اطلاع دے دی جائے کہ میرا پتر ہوا ہے لوجی صبح سے شام تک چائے، مبارک باد اورلڈو کا اہتمام رہا۔ بابا فضل کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اندر ہی اندر یہ سوچ کر کہ کہیں سب کو خبر نہ ہو جائے کہ میرے گھر پتر نہیں تیسری مخلوق نے جنم لیا۔ پیرو بہنوں کے ساتھ بڑا ہوتا گیا۔ اس کا گھر سے باہر نکلنا تقریبا ممنوع تھا کیونکہ ایسا نہ ہو کسی کو پیرو کے خواجہ سرا ہونے کی خبر ہوجائے اور پھر قیامت ان کا دروازہ دیکھ لے۔

بابا فضل کی دونوں بیٹیاں بھائی سے بہت پیار کرتیں تھیں وہ چاہتی تھیں کہ کبھی کبھار وہ بھائی کے ساتھ میں عام بچوں کی طرح ہنسی خوشی کھیل کھیلیں۔ مگر ابا اماں کبھی اس بات کی اجازت نہ دیتے۔ پیرو کی پڑھائی کا اہتمام بھی گھر میں ہی کیا گیا بابا فضل پیرو کو پڑھاتے اور کوشش کرتے کہ پیرو کا مذکر مونث درست رہے۔ پیرو بہنوں کے ساتھ ہنسی خوشی گڑیا پٹولے کھیلتا رہتا جب گھر میں اکیلا ہوتا تو اماں سے پوچھتا کہ میں گھر سے باہر کب جاوں گا تو اماں پیار بھرے انداز سے جواب دیتی میرا پتر میری آکھاں دے سامنے رہے میں تو یہی چاہتی۔

پیرو معصومانہ سوال کرتا کہ اگر میں باہر دوستوں کے ساتھ کھیلوں گا نہیں جھولے نہیں لوں گا تو میں بڑا ہو کر مرد کیسے بنوں گا۔ وقت اپنی رفتار سے گزرتا گیا پیرو اب گاؤں سے دور ایک سرکاری سکول میں بہنوں کو چھوڑنے جاتا اور واپسی پر چاچے کریمے کی دکان سے املی خرید لاتا۔ بہنوں کے ساتھ گڑیا پٹولے کھیل کھیل کر اس کا بھی خواب بنا کہ اس کا بھی ایک خوبصورت گھر بنے اور وہ بھی بالکل ایسے ہی زندگی گزرے جیسے یہ بے جان گڑیا۔

اب تو پیرو کبھی کبھی گڑیا کو تیار کرتا کرتا کچھ میک اپ اپنے چہرے پر بھی سجا لیتا۔ بابا فضل گھر داخل ہوا تو دیکھا کہ چارپائی پر ڈھیر سارے کھلونے بکھیرے ہوئے ہیں لال دوپٹا اوڑھے پیرو لپ سٹک لگا کر زورو زور سے مسکرا رہا تھا۔ یہ وقت بابا فضل کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا کیونکہ پیرو کی ہنسی میں ان کو ایک ہیجڑے کا روپ نظر آ رہا تھا۔ بابا فضل حیرانگی اور وحشت کے مارے زمین پر گڑ گیا۔ اماں، بابا فضل کو حوصلہ دیتے ہوئے پیرو کو سمجھانے لگی دیکھ پیرو گڑیا سے کھیلنا اور یہ رنگ برنگے اوڑھنے اوڑھنا تجھے زیب نہیں دیتا پتر۔

اماں نہ تو باہر جانے دیتی ہے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کو اور نہ ہی گڑیا سے کھیلنے دیتی ہے بس مجھے اب یہی کھیل کھیلنا ہے ایسے کر تو اور ابا بھی میری گڑیا کی شادی پر آجانا۔ اور ہاں میرے لیے لال رنگ کا تلے والا کھسہ لانا اور ڈھیر ساری چوڑیاں۔ اماں ہکا بکا پیرو کا منہ تکنے لگی بس پھر کیا تھا ہر روز ایک نئی بات گھر میں کہرام مچا دیتی۔ کبھی کوئی ہیجڑا بھیک مانگے گھر کی دہلیز پر آتا تو اماں ابا کا سانس اٹک جاتا مگر پیرو بھاگ کر دروازے کی اوٹ میں جا کھڑا ہوتا اور ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا۔

وہ ویسا ہی روپ دھارتے ہوئے صحن میں اٹکھیلیاں کرتا رہتا۔ گاؤں میں میلہ سجا محلے کے سبھی لوگ میلہ دیکھنے جارہے بابا فضل دونوں بیٹیوں کو لے کر میلہ دیکھنے چلا گیا۔ پیرو روتا رہا اور پھر سو گیا صبح روٹین کے مطابق اٹھا ناشتہ کیا اور موقعہ غنیمت جان کر گھر سے باہر نکل گیا دوپہر سے شام ہو گئی پیرو واپس نہ آیا اماں اور بابا فضل اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گے اور خوف سے ان کی جان نکلے جا ری تھی کہ کہیں ان کے بچے کے ساتھ کچھ برا نہ ہو جائے۔

رات کو آس پاس سے شور سنائی دیا بچے پیرو کو کھسرا کھسرا بول کر چھیڑ رہے تھے بابا فضل نے گھر سے باہر نکل کر دیکھا تو زمین بوس ہوگیا پیرو لال دوپٹے سے منہ چھپائے عورت کی مانند چلتا ہوا واپس آرہا تھا اور اس کے بعد محلے میں باتیں ہونے لگیں اور یہ خبر بھی پھیل گئی کہ پیرو تیسری مخلوق ہے۔ بابا فضل اللہ کو پیارا ہو گیا اور اب سارے گھر کی فکر اماں پر تھی اندر باہر جانے کے لیے اماں کو سہارے کی ضرورت تھی مگر پیرو کے بارے میں لوگ عجیب عجیب باتیں کرتے جس کی وجہ سے لوگوں سے دور ہو گئے۔

بڑی بیٹی کے لیے رشتہ آیا تو لڑکے کے گھر والوں نے حیرانی سے پیرو کو دیکھ کر انکار کر دیا پھر ہر روز یہی کہانی دہرائی جاتی پیرو نہ تو پڑھ سکا نہ ہی پر اعتماد ہو سکا۔ اماں روز منہ چھپائے روتی رہتی۔ بہن کی بات پکی ہوگئی مگر شرط یہ رکھی گئی کہ پیرو شادی میں شریک نہ ہو کیونکہ باراتی دولہے کے خاندان کا مذاق بنائیں گے۔ اماں نے پیار سے پیرو کو دودھ کا پیالا تھمایا اور سمجھانے لگیں میرا پتر تو دو چار دن کسی دوست کے پاس رہ لے بہن کی شادی ہو جائے واپس آجانا اماں میرا تو کوئی دوست ہی نہیں بنا اج تک۔

چل تو پھر میلہ دیکھنے چلا جا۔ ایسے تیسے کر کے دکھی دل کے ساتھ پیرو گھر سے نکل گیا بہن کی رخصتی ہوئی تو کونے پر چھپ کر کھڑے پیرو نے روتے ہوئے بہن کی ڈولی کو آخری بار الوداع کہا اور بوجھل دل کے ساتھ میلے پر جا پہنچا دو دن بعد پیرو اپنے جیسے ایک گروپ کے ساتھ پورے گاؤں میں شادی بیاہ اور ہر خوشی کے موقع پر ناچ گانا کرتا نظر آیا سب اس کو ہیجڑا کہہ کر پکڑ رہے تھے۔ ہاں وہ ہیجڑا بن گیا تھا کیونکہ دنیا کے ڈر نے اس کا اعتماد اس کی زندگی سب کچھ چھین لینا تھا نہ دوست تھے نہ یارانہ اور تعلیم بھی صرف مڈل۔

اماں ابا لوگوں دنیا کے خوف سے ساری زندگی اس معصوم کو چھپاتے رہے اس کا اعتماد، زندگی، ازادی سب بے جا خوف نے ختم کردی جب کچھ حاصل نہ ہوا تو اس نے اپنی وہی پہچان بنا لی۔ آج پھر پیرو ہیجڑے کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور یہ لالٹین کی روشنی پیرو کے گھر کی ہے۔ معاشرے کے ڈر نے جیتے جاگتے انسان سے اس کے سبھی اچھے خواب چرا لیے۔ بچوں کووالدین کے اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ساری زندگی ہم یہ سوچتے گزار دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے اور لوگ صرف یہی کہتے ‏انا للہ و انا الیہ راجعون۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).