اپنے گریبان میں جھانکیے


15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے دوران ایک دہشت گرد نے انتہائی خطرناک اسلحے سے ایک مسجد پر دھاوا بولا اور بیسیوں نہتے اور معصوم مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قاتل کو فوری گرفتار کرلیا گیا۔ اس معاملے پر پوری دنیا میں مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کیا گیا اور ہر جگہ اس دہشت گردی کی مذمت کی گئی۔ نیوزی لینڈ کے لوگوں اور خصوصاً ان کی وزیراعظم جسینڈرا آرڈرن کا رویہ انتہائی غیر معمولی اور خوش آئند تھا۔

انہوں نے نہ صرف قاتل کو ایک جنونی دہشت گرد مانا بلکہ مسلمانوں کے غم میں مکمل طور پر شریک ہوئیں اور مسلمانوں سے معذرت بھی کی۔ پورا ملک دکھ کی اس گھڑی میں مسلمان کمیونٹی کے دکھ میں برابر کا شریک تھا۔ اظہار یکجہتی کے لیے وزیراعظم سمیت عام عوام نے نماز اور دیگر مسلم مذہبی فرائض ادا کرکے ایک انتہائی خوشگوار تاثر دیا۔ حکومت کی جانب سے قومی ٹی وی پر اذان نشر کی گئی۔ بچے بڑے مسجدوں کے باہر کھڑے حفاظتی بناتے رہے۔ یہ سب کچھ ہوا مگر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا کہ حکومت ایک اقلیتی برادری کو اس قدر اہمیت ے رہی ہے اور اس کی مذہبی رسومات تک میں شامل ہو رہی ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو ایک مہذب اور ترقی یافتہ قومیں اپنی اقلیتوں سے روا رکھتی ہیں۔

اب ذرا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جو کرسمس کے موقع پر عیسائیوں کو میری کرسمس کہنے والوں کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیتے ہیں۔ ہولی پر ہندوؤں کو مبارک دینے سے ہمارا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اقلیتوں کے لیے دنیا کا سب سے شاندار آئین رکھنے والے مذہب کے ماننے والے آج اقلیتوں سے نفرت کی حد تک جا پہنچے ہیں۔ ان کو ان کے حقوق دینا تو دور کی بات، انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ گوجرہ میں عیسائی بستی جلائی گئی جس کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کفر کے فتوے لگائے گئے اور جہنمی قرار دیا گیا۔

آسیہ بی بی کے لیے آواز اٹھانے والے مسلمانوں کو واجب القتل تک قرار دے دیا گیا۔ ہندو عورتوں کے لیے آواز اٹھانے والی مسلمان سماجی کارکنوں پر شدید تنقید کی گئی۔ غرض یہ کہ نیوزی لینڈ کے لوگوں کے مسلمانوں سے رویے پر ان کی تعریفوں کے پل باندھنے والے خود اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیا کرتے پھرتے ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے ہمارے ملاؤں نے اسلام کی اصل روح کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اسلام کا ایک بالکل مختلف اور غلط چہرہ اقلیتوں کے سامنے پیش کیا ہے جو کہ بذاتِ خود اسلام کے لیے خطرہ ہے۔

کہاں تُو ڈھُونڈنے آیا گُلِ اخلاص کی خوشبُو

یہاں تو بُغض اُگتا ہے محبت کی زمِینوں میں

وہ اقدار جن کا مظاہرہ آج نیوزی لینڈ کے لوگ کررہے ہیں، کبھی مسلمانوں کا وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ مسلمان ریاستوں میں اقلیتوں کو اس قدر حقوق حاصل ہوتے تھے کہ ان پر رشک آتا تھا۔ اسی رویے کو دیکھ کر لاکھوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسی لیے کسی شاعر نے کہا

شعورِ ذات میں شامل ہے گر اسلاف کی دستک

تو پھر کردار میں کیسے نہ ہو اوصاف ک دستک

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی غیر مسلم کے دکھ غم میں شریک ہونے سے ہمارے جذبہ ایمانی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا بلکہ اس طرح اقلیتوں کی نظر میں ہمارا وہی تاثر بنے گا جو آج نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور وہاں کے لوگوں کا ہماری نظر میں بنا ہے۔ اتنا بڑا دہشت گردی کا سانحہ اگر ہمارے ہاں ہوتا تو آج ہر طرف نفرت کی ایک فضا قائم ہوتی مگر سلام ہے جسینڈرا آرڈرن اور اس کی عوام پر جنہوں نے خود کو ایک مہذب اور انسانیت دوست قوم ثابت کرتے ہوئے اس مخدوش صورتحال کو اپنے حق میں بدل دیا اور تمام مسلمان دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ خدا کرے کہ ہمیں بھی کوئی ایسا رہنما ملے جو نفرتوں کی خلیج کو دور کرے اور عوام کے دل جیت لے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ماحول یونہی بغض، کینے اور منافقت سے بھرا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).