پاکستان کے بدنام حکمران کون سے ہیں؟


پاکستان کے حکمرانوں کی فہرست میں طرح طرح کے نام شامل ہیں اور سب کے سب اپنی حمایت یا مخالفت میں مواد رکھتے ہیں مگر حکمران فہرست کی اس جرنیلی سڑک میں صرف تین نام ایسے ہیں جو اَب تک بدنامی کے پراپیگنڈے میں غیرمتنازع ہیں یعنی ان کے بارے میں کوئی بھی اچھی رائے نہیں رکھتا۔ آئیے پاکستانی تاریخ کے ان تینوں کرداروں کاجائزہ لیتے ہیں اور ان کا موازنہ دیگر حکمرانوں سے کرتے ہیں۔ غلام محمد لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔

علی گڑھ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور فنانس کا پیشہ اپنایا۔ جوائنٹ وینچر کے تحت ایک فنانس کمپنی ”ماہندر اینڈ محمد“ کے نام سے قائم کی جو بڑی کامیابی سے کاروبار کرنے لگی۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی کابینہ میں وزیر خزانہ مقرر ہوئے۔ 16 اکتوبر 1951 ء کو لیاقت علی خان کے قتل کے اگلے ہی روز خواجہ ناظم الدین کی جگہ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کی منتخب حکومت کو برطرف کرنے کی بری روایت بھی ڈالی۔

غلام محمد کو سکندر مرزا نے اقتدار سے علیحدہ کیا اور خود اکتوبر 1955 ء کو گورنر جنرل بن گئے۔ وہ بنگال کے آخری نواب منصور علی مرزا کے پوتے تھے اور سینڈ ہرسٹ اکیڈمی برطانیہ سے گریجویشن کرنے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ چند ماہ بعد جب گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا تو وہ پاکستان کے پہلے صدر بن گئے۔ ان کے عہد میں وزیراعظم چوہدری محمد علی نے 23 مارچ 1956 ء کو پاکستان کا پہلا آئین پیش کیا۔ سکندر مرزا کو جنرل ایوب خان نے 1958 ء میں اقتدار سے علیحدہ کردیا۔

سکندر مرزا بھی پاکستان کے برے حکمرانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ نادر شاہ ایران میں مارے گئے تو ان کے خاندان کے کچھ لوگ جان بچا کر متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے موجودہ خیبرپختونخوا میں آکر آباد ہوگئے۔ ان ہی میں ایک قزلباش سعادت علی خان اپنے اہل خانہ کے ساتھ چکوال پنجاب آگئے جہاں ان کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جسے ہم یحییٰ خان کے نام سے جانتے ہیں۔ یحییٰ خان نے برٹش انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران افریقہ میں لڑتے ہوئے جنگی قیدی بنے مگر اٹلی کی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ قیام پاکستان کے وقت سٹاف کالج کوئٹہ میں وہ واحد مسلمان انسٹرکٹر تھے۔ وہ 34 برس کی عمر میں ہی بریگیڈئر بن گئے۔ بعد میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پائی۔ پاکستان کے نئے درالخلافے اسلام آباد کے پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور اپنی زیرنگرانی پہاڑوں اور جنگلوں میں ایسا شہر آباد کیا جسے یورپ والے بھی دیکھنے کے لیے آنے لگے۔

1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں مختلف محاذوں پر لڑے۔ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ پاکستان سے ناراض ہوا۔ اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ Dean Rusk نے پاکستان کو تنبیہ کی ”اگر تم بھارت سے لڑنا چاہتے ہوتو جاؤ لڑو لیکن تمہیں اس کے لیے کچھ ادا نہیں کیا جائے گا“۔ اس پابندی کے بعد میجر جنرل یحییٰ خان نے چین سے روابط قائم کیے اور فوری طور پر T۔ 59 ٹینک حاصل کرنے کا معاہدہ کیا جنھوں نے امریکی ٹینک M۔ 47 اور M۔ 48 کی جگہ لی۔

بھارت کے خلاف آخری بھرپور حملے Grand Slam آپریشن کی کمانڈ بھی کی جس کے صلے میں انہیں لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا گیا۔ بعد میں انہیں پاک فوج کے کمانڈر انچیف کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ ایوب خان مارچ 1969 ء میں جنرل یحییٰ خان کو اقتدار دے کر گھر چلے گئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے سواریوں سے بھری ہوئی ایک بس کو لمبے عرصے تک چلانے والا ڈرائیور جب محسوس کرے کہ بس کے سٹیئرنگ کا ٹائی راڈ کھل گیا ہے تو وہ ڈرائیونگ کی ذمہ داری دوسرے ڈرائیور کو دے اور خود حالات سے بری الذمہ ہوجائے۔

چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صدر جنرل یحییٰ خان نے ذاتی پارٹی بنائے بغیر 1970 ء کا الیکشن کروایا اور نتائج پر اثرانداز نہ ہوئے۔ سیاسی مکاریوں اور بین الاقوامی بری نیتوں کے باعث پاکستان کو 1971 ء میں بھارت سے شکست ہوئی اور دسمبر 1971 ء میں جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ غلام محمد اور سکندر مرزا پر لگنے والے الزامات میں ڈرائنگ روم پولیٹکس جوڑ توڑ، بدانتظامی، خوشامد پسندی، اقربا پروری اور منتخب نمائندوں کو برطرف کرنا وغیرہ شامل ہیں جبکہ یحییٰ خان کے ماتھے پر ملک توڑنے والے عیاش حکمران کے نام کا کالا دھبہ موجود ہے۔

یہ علیحدہ بات کہ ملک سوا دو سال کے عرصے میں توڑے جاسکتے ہیں نہ ہی بنائے جاسکتے ہیں، ان کے توڑنے یا بنانے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے جو شاید اُس وقت شروع ہوگیا تھا جب حسین شہید سہروردی کو لیاقت علی خان نے پاکستان کی پہلی کابینہ میں نہیں لیا تھا۔ غلام محمد، سکندر مرزا اور یحییٰ خان کے حالات زندگی کو غور سے دیکھیں تو اقتدار کی غلاظت کے علاوہ تینوں شاندار کیرئیر کے مالک تھے۔ تینوں باصلاحیت، با اختیار اور بہترین پروفیشنل زندگی گزار کر آخر میں ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اپنی ساری زندگی میں اِن لوگوں نے روپیہ پیسہ اکٹھا نہیں کیا۔

مثال کے طور پر جب 61 برس کی عمر میں غلام محمد فوت ہوئے تو اُن کے پاس محض 24 ہزار روپے تھے۔ سکندر مرزا اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد اس حد تک معاشی مجبوریوں سے دوچار ہوئے کہ انہیں برطانیہ کے ایک ہوٹل میں معمولی ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ ملک کے دفاع کو امریکی لائن سے نکال کر چین سے جوڑنے والے یحییٰ خان نے بھی اِن کاموں کا معاوضہ نہیں لیا۔ گویا اِن تینوں پر سب الزام ممکن تھے مگر مالی بدیانتی کا الزام نہیں تھا۔

ان تینوں کی دوسری خاصیت یہ تھی کہ انہوں نے پاکستانی اقتدار کو اپنی خاندانی وراثت نہیں بنایا۔ اسی لیے ان تینوں کی اولادوں کے بارے میں ہم عام طور پر لاعلم ہیں۔ اب ان تینوں بستہ ب کے حکمرانوں کی حکمرانیوں کا دیگر پاکستانی نیک یا پاپولر حکمرانوں کی حکمرانیوں سے موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ڈرائنگ روم پولیٹکس جوڑ توڑ، بدانتظامی، خوشامد پسندی، اقربا پروری اور منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کا چلن ان کے بعد کہیں زیادہ رہا ہے۔

بھری ہوئی بوتل اور ناچتی ہوئی بوتل کو جتنی داد پرویز مشرف کے دور میں ملی اُس پر یحییٰ خان بھی رشک کرتے ہوں گے۔ سٹریٹ کرائم، اقربا پروری اور انسانیت کی توہین جتنی اب ہورہی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ وہ خاص بات جو غلام محمد، سکندر مرزا اور یحییٰ خان جیسے بدنام زمانہ حکمرانوں میں بھی نہیں تھی وہ اب پوری طرح موجود ہے یعنی وہ تینوں مالی طور پر بدیانت نہیں تھے جبکہ اب مالی دیانت کا نام ونشان نہیں ہے۔ ذاتی خزانے کے لیے سرکاری خزانے کو ایسے اجاڑا جاتا ہے جیسے جانور رات کو کسانوں کی فصلیں اجاڑ جاتے ہیں۔ غیرملکی ایجنڈے کی اس طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے جیسے خود غیرملکی بھی نہیں کرسکتے۔ تاریخ کا سروے کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اب ایک نیا سوال نامہ تیار کریں اور قوم سے رائے لیں کہ 72 برس بعد پاکستان کے بدنام حکمران کون سے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).