کوئٹہ ارمانوں کا قبرستان


بلوچستان کے بارے میں تین باتیں یا سلوگن لطیفوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اوّل بلوچستان کے عوام سے معافی چاہتے ہیں دوم صدر یا وزیر اعظم کے دورے سے بلوچستان کے احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا سوئم پاکستان کا مستقبل بلوچستان سے وابستہ ہے۔ یہ باتیں یہ نعرے ہم سابق صدر جنرل ضیا الحق کے دور سے سنتے آ رہے ہیں۔ اس وقت سے آج تک حکمرانوں کی جانب سے بلوچستان سے معافی مانگنا ایک فیشن اور ایک رسم بن چکا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ہمارے حکمران جن میں صدر وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر اور مشیر تک اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد عمرہ کی سعادت حاصل کرنا لازمی قرار پاتا ہے۔

خواہ عمرہ کے تقاضے پورے کیے جائیں یا نہیں لیکن عمرے کے لئے جانا ضروری ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایسا ہی ہے کہ بلوچستان سے ماضی میں کی جانے والی زیادتیوں کی معافی مانگی ضرور جاتی ہے۔ معافی کے تقاضے بیشک پورے نہ کیے جائیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے یہ قولِ زرّیں سنا تھا کہ پاکستان کا مستقبل بلوچستان سے وابستہ ہے۔ مزید یہ کہ اس کی محرومیوں کا نہ صرف ازالہ کریں گے بلکہ بلوچستان کو اس کے حق سے بھی زیادہ دیں گے۔

وہ بلوچستان کو ترقی دے سکے یا نہیں البتہ کوئٹہ کی عدالتِ عالیہ اس کی راہ ضرور تکتی رہی ہے۔ کوئٹہ بلوچستان کا دارالحکومت اور صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 18 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ خوشگوار موسم کے باعث یہاں گرمیوں میں پاکستان بھر سے لوگ گرمیاں گزارنے اور سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے مستقبل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے مقامی شہری شدید مشکلات اور مسائل میں گھرے رہتے ہیں۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ مستقبل کے بین الا اقوامی شہر گوادر کی طرح پینے کا صاف پانی کا ہے جو سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لئے سابق وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللّٰہ زہری نے پٹ فیڈر کینال ڈیرہ مراد جمالی سے کوئٹہ شہر کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ بنایا تھا مگر وہ اس پر عمل نہیں کر سکے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی حکومت نے اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے دیا ہے۔ جس سے یہ مسئلہ مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح گوادر کے لوگ سمندر کے کنارے رہ کر پانی کو ترس رہے ہیں۔ کوئٹہ کے شہریوں کا بھی یہی حال ہے۔

یہاں پر واسا اور ٹینکر مافیا کا راج ہے۔ کوئٹہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ واسا کی جانب سے شہر میں پانی کی فراہمی کا جو شیڈول بنا ہوا ہے اس کے مطابق 3 روز بعد ہر علاقہ کی باری آتی ہے اور وہ بھی بہ مشکل ایک گھنٹہ مل پاتا ہے جس سے پانی کی ضرورت پوری ہونا نا ممکن ہے۔ اگر کوئٹہ کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو یہاں صرف چند ہزار لوگ جن میں گورنر وزیر اعلیٰ وزراء ارکان اسمبلی سرکاری افسران اور بڑے تاجر حضرات ہی کو پانی کی سہولت حاصل ہے۔

عام شہری اور مزدور طبقہ پانی کے لئے ترس رہا ہے۔ یہ لوگ دو وقت کی روٹی کے لئے پریشاں اور سرگرداں ہیں اوپر سے پانی کی ضرورت نے ان کی کو عذاب بنا رکھا ہے۔ پانی کا فی ٹینکر 3 سے 4 ہزار روپے فروخت ہو رہا ہے تو غریب اور مزدور طبقہ کہاں سے پانی کا ٹینکر خرید سکتا ہے۔ وہ تو پانی کی بوند بوند کے لئے ادھر ادھر بھٹکتا پھر رہا ہوتا ہے۔ ہر آنے والی صوبائی حکومت نے کوئٹہ کو پیرس بنانے اور اس کی خوبصورتی کو بحال کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

لیکن ماضی کا یہ لٹل پیرس اب زندہ انسانوں کا کھنڈرات میں تبدیل ہوتا ہوا پیاسا شہر بن چکا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ نواب ثناء زہری کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ کوئٹہ سے زیادہ کراچی اور دبئی میں رہتے تھے مگر پھر بھی انہوں نے کوئٹہ نہ سہی لیکن وزیر اعلیٰ ڈولپمنٹ پیکیج کے تحت صوبے کے دور دراز شہروں کی خوبصورتی اور سہولیات اور ترقی کے حوالے سے قابل ذکر اقدامات کیے تھے۔ اس کے برعکس موجودہ وزیر اعلیٰ زیادہ تر وقت کوئٹہ کو دے رہے ہیں۔

عوامی نمائندے اور عام شہری ان سے آسانی کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں۔ مگر ابھی تک سہولیات اور ترقیاتی اقدامات کے حوالے سے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اس لئے صرف ملاقاتوں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ بس لوگ آس اور امّید کی شمع جلائے بیٹھے ہیں۔ شاید کہ کچھ مثبت اقدامات کیے جائیں۔ قلت آب کی وجہ سے کوئٹہ میں زندگی خطرے میں ہے جس سے انسان چرند پرند اور حشرات الارض سبھی دوچار ہیں۔ اگر ایک دو برس کے اندر پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا تو پھر اس شہر کو خدانخواستہ ویران ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ انسان اور حیوان سبھی نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ اور یہاں کے انسانوں کے ارمان قتل ہو جائیں گے اور پھر یہ شہر صرف اور صرف انسانوں کے ارمانوں کا قبرستان بن کر رہ جائے گا۔ تاریخ کے اوراق میں اس کا بڑی حسرتوں اور بڑے ارمانوں کے ساتھ ذکر کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).