ترکی میں اتخابات: ترک شہروں پر اقتدار کے لیے اردوغان کو سخت مقابلے کا سامنا


ترکی انتخابات

ترکی میں نئے صدارتی نظام کے نافذ ہونے کے بعد اتوار کو پہلی مرتبہ مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں جس میں صدر رجب طیب اردوغان کی جماعت کو مالیاتی بحران کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ترکی کے 81 صوبوں کے پونے چھ کروڑ عوام مقامی حکومتوں میں اپنے نمائندے منتخب کر رہے ہیں۔ چند بڑے شہروں میں مئیر بھی براہِ راست منتخب ہوں گے جن میں انقرہ کے میئر کے عہدے کے لیے کانٹے دار مقابلہ ہو رہا ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ انقرہ میں ان کا میئر کے عہدے کے لیے متحدہ امیدوار منصور یاوش، ان انتخابات میں صدر اردوغان کے امیدوار محمود اوژشکی کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔

ترکی میں سنہ 2017 کے ریفرنڈم میں نیا صدارتی نظام اپنایا گیا تھا۔ صدر طیب اردوغان کی جماعت انصاف پارٹی کو سنہ 2014 کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

تاہم اس مرتبہ ترکی کی کرنسی لیرا کی قیمت گر جانے اور پھر اس کے بعد مالیاتی بحران اور افراطِ زر کی وجہ سے مہنگائی کے بظاہر نہ ختم ہونے والے سلسلے نے ان کی مقبولیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ترکی انتخابات

ترکی میں اس وقت مہنگائی کی شرح بیس فیصد بتائی جا رہی ہے جبکہ لیرا مالیاتی بحران سے پہلے کے دنوں کے مقابلے میں ایک تہائی قیمت کھو چکا ہے۔ ترکی کی کرنسی کی قیمت گزشتہ برس اس وقت گری تھی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی اور امریکہ کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ترکی کی برآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ حزب اختلاف کی جماعت کو قوی امید ہے کہ وہ جسٹس پارٹی کو اس کے کئی مضبوط شہروں میں شکست دے دے گی۔

صدر رجب اردوغان نے ان انتخابات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ترکی کی اور ان کی جماعت انصاف پارٹی کی بقا کے لیے بہت اہم انتخابات ہیں۔ ان کی جماعت گزشتہ سولہ برسوں سے مسلسل اقتدار میں ہے۔ ’بہترین پارٹی‘ کی رہنما میرل اکشے نر سے جب ایک مقامی صحافی نے ووٹ ڈالتے وقت پوچھا کہ آپ کیا محسوس کر رہی ہیں تو انھوں نے کہا ’ایک اچھا نتیجہ آئے گا۔‘ ’ملیتِ حریت پارٹی‘ یا ایم ایچ پی کے رہنما دولت بحچلی جمہوری عوامی پارٹی کے رہنما کلیچ دار دولو نے انقرہ میں ووٹروں کو روک روک کر اپنے امیدوار کے لیے مہم چلائی ہے۔

مقامی حکومتوں کے انتخابات جماعتی سطح پر ہوتے ہیں اور اس وقت ووٹرز بارہ جماعتوں کے امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔ کہا جارہا ہے کہ موجودہ صدر رجب اردوغان مقبول ترین رہنما ہیں لیکن ان کا جدید ترکی کی عوام کو تقسیم کرنے کے لحاظ سے بھی ایک اہم کردار ہے۔

ترکی انتخابات
استنبول کے مئیر کے عہدے کے لیے حزب اختلاف کے متحدہ امیدوار اکرن امام اولو اپنے اہلیہ کے ہمراہ ووٹ ڈال رہے ہیں۔

لیکن مبصرین کے مطابق، اب افراطِ زر، مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے ایسا نظر آرہا ہے کہ تُرک عوام انھیں اور ان کی جماعت انصاف پارٹی کو ایک سزا دینا چاہتے ہیں۔

حزب اختلاف کے ایک جلوس میں شامل ایک ووٹر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘لوگوں کی زندگی اقتصادی مسائل کی وجہ سے اجیرن ہو گئی ہے۔ ’میں ایک دکاندار ہوں، اور ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہوں، لیکن میں نے اس سے پہلے اتنی بری حالت نہیں دیکھی۔’

بی بی سی کے مارک لوون کا تجزیہ ہے کہ ترکی کے بڑے شہروں میں حکمران جماعت انصاف پارٹی کے امیدوار ہار سکتے ہیں کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے متحد ہو کر مقابلے کے لیے اپنا ایک ایک امیدوار کھڑا کیا ہے۔

انقرہ کے ایک ووٹر نے روئیٹرز کو کہا کہ ‘میں شاید آج ووٹ نہ دیتا، لیکن جب میں نے دیکھا کہ حکمران جماعت انصاف پارٹی گِر رہی ہے تو میں نے سوچا کہ اب وقت آگیا ہے کہ انھیں آخری دھکا دیا جائے۔’

ایک سینتالیس برس کے شخص نے کہا ‘اس وقت ہر شخص ناخوش ہے اور بمشکل گزارا کر پا رہا ہے۔’

ترکی انتخابات

صدر اردوعان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران نیوزی لینڈ کی مسجد میں حملہ آور کی قتل و غارت والی فوٹیج کا کُھل کر استعمال کیا۔

حکمران جماعت انصاف پارٹی سنہ 2002 سے ہر انتخاب جیتتی چلی آرہی ہے لیکن اس مرتبہ ان کے حامیوں کو بھی اپنی کامیابی کا پورا یقین نہیں ہے۔ اب جب کہ ملک کا زیادہ تر میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے، تو آزاد تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف اپنی لڑائی کا آغاز ہی ایک غیر متوازن میدان میں کر رہی ہے۔ حزب اختلاف کی ایک اور جماعت کردش ڈیموکریٹک پارٹی نے پہلے ہی ان انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دے کر اپنے امیدوار کئی شہروں میں میدان میں اتارے ہی نہیں۔

کردش ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی رہنماؤں کو دہشت گردی کے الزام کے تحت قید میں رکھا گیا ہے۔ یہ رہنما ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ٹیلی ویژن چینیلوں پر زیادہ تر اردوغان کی کوریج دیکھنے میں نظر آئی۔ سنیچر کو انھوں نے اپنی جماعت کے حامیوں اور قدامت پسند گروہوں کو یقین دلایا کہ ہر معاملہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ ان کا کہنا تھا ‘اس وقت اس ملک کی معیشت کا میں صدر کی حیثیت سے حاکم ہوں۔’ انھوں نے ترکی کے اقتضادی مسائل کا مغربی ممالک اور خاص کر امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

اس دوران ترک صدر پر اس وجہ سے بھی تنقید کی گئی ہے کہ انھوں نے کرائسٹ چرچ کے قتلِ عام کے مناظر کو ترک ٹیلی ویژن چینیلوں پر دکھانے کی کھلی چھٹی دیے رکھی ہے۔ ان حملوں میں پچاس مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔ صدر طیب اردوغان نے نیوزی لینڈ کے حملہ آور کے بارے میں عوام کو خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے لوگ اب ترکی میں آسکتے ہیں۔ اردوغان کے اِس بیان سے ایک سفارتی تنازعہ بھی پیدا ہو گیا ہے کیوں کہ اِس سے اُن ہلاک شدگان ترکوں کی یاد تازہ ہو رہی ہے جو 1915 کی جنگِ گیلی پولی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp