کم سِن بچیوں کا جنسی استحصال، انصاف اور والدین کی ذمہ داریاں


اپنے چھ بچوں کے ہمراہ راولپنڈی میں مقیم پشتو کی معروف گلوکارہ نازیہ اقبال، ان کی کمسن مظلوم بچیوں اور شوہر کو آخر کار انصاف مل ہی گیا۔ راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر اسلم نے بچیوں کے حقیقی ماموں اور درندہ صفت اوباش ملزم افتخار علی پر جرم ثابت ہونے پر اسے سزائے موت اور چھ لاکھ جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اگرچہ مجرم کے پاس اس سے اعلٰی عدالت میں ابھی اپیل کا حق ہے مگر ہمیں اپنے عدالتی نظام پر اعتماد ہے کہ کوئی بھی عدالت نوخیز کلیوں کو بے دردی سے مسلنے کے جرم میں ملوث کسی درندے سے رعایت نہیں برتے گی۔

یاد رہے کہ گلوکارہ نے پچھلے سال تھانہ روات میں اپنے انیس سالا حقیقی بھائی افتخار علی کے خلاف رپورٹ لکھوائی تھی کہ ملزم نے اس کی سات اور آٹھ سالہ بچیوں کو کئی بار جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے جس کی وجہ سے بچیاں بے شمار جسمانی، نفسیاتی اور دماغی الجنھنوں اور پیچیدگیوں کا شکار ہو گئی ہیں۔ بعد میں پولیس نے اس درندے کو گرفتار کرلیا تھا جبکہ بد قسمتی سے بچیوں کی میڈیکل رپورٹس نے بھی ان کے ساتھ ہونے والی جنسی درندگی کی تصدیق کر دی تھی۔ گلوکارہ عدالت کے فیصلے پر مطمئن ہیں اور انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ مجھے جرمانہ نہیں چاہیے بس اپنے بھائی کو پھانسی کے پھندے پر جھولتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں جس نے میری بچیوں کی زندگی برباد کردی اور انہیں جیتے جی مار ڈالا۔

گلوکارہ کی کمسن بچیوں کے ساتھ ہونے والا یہ اندوہ ناک واقعہ نہ پہلا سانحہ ہے نہ آخری۔ ہمارے ملک میں قصور ریپ سکینڈل، زینب کیس سمیت آئے روز بے شمار ایسے افسوس ناک واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اوسطاً نو واقعات ہوتے ہیں جو اس طرح کے واقعات کے حوالے سے بہت خوف ناک اور تباہ کن شرح ہے۔ جنسی درندگی کا شکار ہونے والے بچوں میں 58 فیصد بچیاں اور 42 فیصد بچے ہیں۔

یہ اعداد و شمار ان واقعات سے پردہ اٹھاتے ہیں جو کسی تھانے میں رپورٹ ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ رپورٹ ہونے والے واقعات کی شرح بھی بہت تھوڑی ہے۔ ان واقعات کے حوالے سے دوسرا قابل توجہ اور ہو ش ربا پہلو یہ ہے کہ ایسے ساٹھ فیصد سانحات میں مجرم کوئی قریبی عزیز، رشتہ دار یا خاندان کا فرد ہوتا ہے۔ گویا گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھاتا ہے یا گھر کے چراغ ہی سے گھر جل کر بھسم ہو جاتا ہے۔

زیادہ ترواقعات میں اصل ذمہ دار میں والدین ہی کو سمجھتا ہوں جو تعلیم کی کمی یا ناقص فہم و فراست کی وجہ سے بروقت آستین کے سانپوں کو پہچان کر ان کا سر کچلنے میں ناکام رہتے ہیں۔ مثلاً قصور کی زینت کے واقعے ہی کو لے لیں۔ اگر اس حرماں بخت کمسن کلی کے والدین چھوٹے بچوں کو گھر میں تنہا چھوڑ کر عمرے کی ادائیگی کے لیے نہ جاتے تو ان کے گھر پر یہ قیامت نہ ٹوٹتی۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عمرہ ایک نفلی عبادت ہے جب کہ بچوں کی حفاظت، دیکھ بھال اور تعلیم وتربیت فرض کے درجے میں داخل ہے۔

اسی طرح کسی قریبی عزیز، رشتہ دار یا دوست پر اندھا اعتماد کر کے بچوں کے کچھ معاملات کل وقتی یا جز وقتی ان کے حوالے کر دینا پرلے درجے کی خوش فہمی اور حماقت ہے۔ ایسے والدین کی خاص طور پر تربیت ضروری ہے۔ ان میں تعلیم یافتہ اور ان پڑھ دونوں طرح کے والدین شامل ہیں۔ ہمارے ہاں اس طرح کے معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے والدین کا عمومی رویہ بھی بعض اوقات نہایت جذباتی، غیر منطقی اور بے تکا ہوتا ہے۔ مثلاً 2013 کی بات ہے کہ میرے ایک جاننے والے پروفیسر صاحب کو کسی نے بتایا کہ آپ کا ڈرائیور پک اینڈ ڈراپ کے دوران آپ کی کم سن بیٹی سے غیر اخلاقی حرکتیں کرتا ہے۔

پروفیسر صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً ڈرائیور کو گھر بلایا اور معاملے کی طے تک پہنچ کر حقیقت معلوم کرنے کے بجائے اسے سیدھی گولی مار کر قتل کردیا اور خود جیل پہنچ گئے۔ وہ تو بھلا ہو برادری کے سرکردہ لوگوں کا کہ جنہوں نے بیچ میں پڑ کر مقتول کے ورثا کو پچاس لاکھ دیت کی رقم کے طور پر ادا کروا کے پروفیسر صاحب کو گھر لایا۔ اس کے برعکس بعض والدین شروع ہی سے اپنے بچوں کی تربیت اس حوالے سے کرتے ہیں کہ ان کے بچے ایسے حادثات سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

مثال کے طور پر میری ایک جاننے والی معلمہ کا بیٹا میرا شاگرد ہے۔ انہوں نے ایک دن مجھے بتایا کہ ان کا بیٹا (میرا شاگرد) پچھلے دنوں صرف اس وجہ سے چند اوباش لڑکوں کی دست برد سے محفوظ رہا تھا کہ ہم نے اسے گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا تمام فلسفہ سمجھا رکھا تھا۔ ایسے کیسز میں ہمارے ہاں گھر والوں کا طرز عمل اس حوالے سے بہت منفی ہوتا ہے کہ وہ ایسی باتوں کو چھپا کر معاشرے میں اپنی عزت کو پائے پامال ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویہ ایسے جرائم کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ گلو کارہ نازیہ اقبال کی والدہ کا رویہ ہی دیکھ لیجیے۔ وہ اپنے بیٹے کا گھناؤنا جرم ثابت ہونے کے باوجود بھی بیٹی کے بجائے درندہ صفت بیٹے کے ساتھ کھڑی ہیں۔

ایسے جرائم کے سدِ باب کے لیے والدین اور بچوں کی تربیت اشد ضروری ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے بعض افادی پہلو اپنی جگہ مگر یہ نظام ایسے گھناؤنے واقعات کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے۔ آگہی مہم کے ساتھ ساتھ بچوں کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہے۔ بچوں کے کسی شخص یا ماحول کے حوالے سے غیر معمولی طرز عمل یا خوف کی کیفیت کو بروقت سمجھنا بھی لازمی امر ہے۔ قانونی نظام میں موجود نقائص کو دور کر کے ایسے کیسز میں سپیڈی ٹرائل کے ذریعے مجرموں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔

اس کے علاوہ حکومتی سطح پر ایسے بچوں کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کی بحالی کے مراکز میں خاطر خواہ اضافے کے اقدام کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے۔ المختصر ایسے واقعات کی روک تھام میں والدین، افراد معاشرہ، تعلیمی ادارے، اساتذہ اور ریاست کا بروئے کار آنا از حد ضروری ہے مگر سب سے زیادہ ذمہ داری والدین ہی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس حوالے سے تعلیم و تربیت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).