” گل مینہ“ از زیف سید


فروری کے دوسرے ہفتے کی بات ہے۔ حسبِ عادت سابقہ میں نے فروری میں کراچی سے کتابیں منگوائیں۔ سٹی بک پوائنٹ کے محمد اسد نے نئی کتابوں کی فہرست بھیجی۔ میں نے ان میں سے چند منتخب کر کے بھیجنے کی درخواست کی۔ محمد اسد کا پیغام آیا کہ بھائی جان آپ نے ایک ناول، جوکہ میں نے آپ کی طبیعت کے عین مطابق ہے بھیجا، مگر آپ نے وہ نہ بھیجنے کا کہا ہے۔ میری تجویز ہے کہ آپ وہ ناول پڑھیں۔

کتابیں آگئیں اور میں دوسری کتابوں کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔ میرے ناقص علم میں زیف سید کا نام نہیں تھا۔ اس وجہ سے شاید ان کے نئے آنے والے ناول ”گل مینہ“ کو نہ بھجنے کا کہہ بیٹھا۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ آج کے عہد میں اتنا شاندار فن پارہ تخلیق ہو سکتا ہے۔ دوسری کتابوں کے مطالعہ میں غرق تھا کہ ایک رات کتابوں کو ترتیب لگاتے ہوئے یہ ناول میرے ہاتھ آیا۔ سرورق انتہائی خوبصورت لگا۔

ابتدائی صفحات کھولے، پہلا صفحہ پڑھا، دوسرا پڑھا، آگے پڑھتا گیا۔ کتابوں کی ترتیب وہیں رہ گئی اور میں ناول میں کھوگیا۔ ناول ابتداء سے ہی اپنے سحر میں جکڑتا گیا۔ رات کے 3 بجے مجھے نیند آ گئی۔ اگلے روز معمولات سے فراغت کے بعد پھر سے کتاب لے کر بیٹھ گیا۔ جب تک ناول ختم نہ کر لیا دوسرے معمولات ترک تھے۔

ناول کیا ہے؟ تاریخی اور جغرافیائی حقائق کے حسین امتزاج کے ساتھ ساتھ آج کے پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں اور ان کے پیچھے کار فرما عوامل کا عکاس۔ یہ ناول اپنے اندر کئی ادوار کو سموئے ہوئے ہے۔ ناول نگار نے بڑے احسن انداز میں برطانوی راج، اس راج میں اٹھنے والی قبائلی باغیانہ شورشوں، قبائلیوں کا برطانوی فوج کے خلاف سینہ سپر ہونا اور پاکستان کی موجودہ صورت حال کو پیش کیا ہے۔ ناول کا پلاٹ اتنا سادہ نہ ہے۔

واقعات ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہیں۔ وسط کے بعد کہانی میں سلجھاؤ آتا ہے۔ فلیش بیک کا استعمال کمال مہارت سے کیا گیا ہے جس کے اندر بعض تاریخی واقعات قابل ذکر طور پر آتے ہیں ان میں حسن بن صباح کے فدائی ہوں کہ احمد شاہ ابدالی کے جنگ جو اور ان کے حمایتی، سب اس ناول کے قرطاس پر اپنا اثر چھوڑتے جاتے ہیں۔ کردار در کردار ناول کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

ناول کا مرکزی کردار گل مینہ ہے۔ گل مینہ ایک ایسے معاشرے کی باسی ہے جہاں عورت کو محض عیاشی کا سامان سمجھا جاتا ہے۔ قبائل کے اندر عورت کی تعلیم کا کوئی بھی انتظام نہ ہے۔ ان کو جان بوجھ کر نا خواندہ رکھا جاتا ہے۔ عورت ہونا اس معاشرے میں گنا ہ ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کا رشتہ عمر میں بڑے فرد سے کر دیا جاتا ہے۔ گل مینہ بغاوت کی علمبردار ہے۔ اپنی مرضی کی شادی کے لیے اسے اپنا گھر، علاقہ اور یہاں تک کہ پاکستان سے نکل کر افغانستان تک جانا پڑتا ہے۔ جہاں اس کا شوہر دہشت گردوں کے نرغہ میں آ کر جہادی بن جاتا ہے اور مارا جاتا ہے

برطانوی راج کے اندر اپنی باغیانہ کارروائیوں کی وجہ سے سامنے آنے والا کردار گل مینہ کا دادا پاؤ جان ہے۔ اس کردار کو فلیش بیک کی تکنیک کے ذریعے سے بیک وقت بڑھاپے اور نوجوانی کے ادوار میں سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اپنی بہادری و شجاعت کی وجہ سے انگریز سرکار سے انعام حاصل کرتا ہے مگر تقسیم کے بعد یہاپنے قبیلہ سے نکالا جاتا ہے۔ عورت کی تعلیم کے حق میں ہے مگر پورا قبیلہ مخالفت کرتا ہے۔

ماقبل تقسیم، بعد از تقسیم اور موجودہ سیاسی وسماجی صورت حال پر خوب عکاسی کی گئی ہے۔ بعد از تقسیم قبائل سے ملحق افغانستان میں روسی افواج کے داخل ہونے اور شروع ہونے والی جنگ، جہادیوں کا اکٹھے ہو کر لڑنے، ان کا شہید ہونا اور ان کے مرنے کے بعد ان کے گھر والوں کی کسمپرسی اور بے یارومدد گا ری کا نوحہ۔ ان سب عوامل کی ذمہ دار تنظیموں نے ایک بار بھی مڑ کر نہ دیکھا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا بنا؟ ان کا واحد سہارا جو کہ اس جہاد میں مارا گیا، ان کو اس کا متبادل کیا ملے گا؟ نہ دیکھی ہوئی جنت یا پھر اس دیکھی ہوئی دنیا کی روٹی ؟

قبائلی علاقوں میں پنپنے والی ان جہادی کارروائیوں کا دائرہ کار جب پاکستان کے میدانی علاقوں میں پھیلا اور دشمن ممالک نے اپنے مقاصدکے لیے ان گروہوں کی سربراہی کی، تب ان چند مفاد پرستوں نے کیسے ان معصوم بچوں کو جہاد کا سبق پڑھایا۔ ان معصوموں کا نمائندہ کردار فتح خان ہے جو اپنے باپ کے مرنے کے بعد مدرسہ میں آیا مگر دہشت گرد بن کر باہر آیا۔

شفیق پینٹڑ ناول کے وسط کے بعد آیا مگر اپنے رنگوں سے ناول میں جندار کردار بن گیا۔ اپنے خوش نما کام اور مہارت کی وجہ سے وہ دہشت گرد وں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ اس پر تشدد کر کے ایسی خوش نما جنت کی تصویر کشی کروائی جاتی ہے کہ نوعمر بچوں کو یہ چیزیں دکھا کر خود کش بمبار بنایا جاتا ہے۔

احمد شاہ ابدالی ہو کہ حسن بن صباح ان جیسے سبھی کرداروں نے اپنے مفادات کے لیے عام عوام کو مہرہ بنایا۔ اپنی اقتدار کو طول دیا۔ عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے قصروں کی تعمیر کرتے رہے مگر آج کا قاری ان حقائق سے نا بلد ہے، نئی نسل کو بھی ان حقائق سے دور رکھا جا رہا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ہمارا نصاب ہے۔ کب تک ہم اپنے ماضی کے سچ سے خود بھی دور بھاگیں گے اور اپنی نسل نو کو گمراہ رکھیں گے؟

ناول کا اختتام ایک بہت بڑے پاکستانی سیاسی المیہ سے ہوتا ہے، جی ہاں لیاقت باغ میں محترمہ بے نظیر بھٹو پر خود کش حملہ۔ یہاں ناول نگار نے اپنے تخیل کے بل پر خودکش حملہ آوروں اور ان کے درمیان گفتگو کوموضوع بحث بنایا ہے۔ فتح خان کا اپنے آپ کے دھماکہ میں نہ اڑانا دراصل ایک پس پردہ شعور ہے جی ہاں ایک ایسا شعور کہ جس میں ہر ذی شعور کو پتہ ہو کہ غلط اور درست کیا ہے؟ حملہ کے بعد کی صورت حال ایک خاص پاکستانی صؤرت حال کو عیاں کرتی نظر آتی ہے، گل مینہ کا اپنے بیٹے کے سرکے حصول میں دشواری ایک خاص المیاتی تاثر دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر گل مینہ ایک ایسا ناول ہے کہ جس کے اندر تاریخی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی تصویر کشی کی گئی ہے۔ موجودہ عہد میں ناول نگاری کی جہت میں ایک اچھے فن پارے کا اضافہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).