کیا سندھ میں ہر عوامی مسئلے کا حل احتجاج سے ہی مشروط ہے؟


اگرچہ آئین پاکستان میں عوامی حقوق اور حکومتی فرائض کے حدود کا تعین واضح طور پر موجود ہے۔ ہر ادارہ اور ہر فرد ان حدود میں رہ کر اپنا اپنا کام کرنے کے لیے پابند بھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکومتی نظام سے معاشرتی رویوں تک کہیں بھی کوئی توازن اور انصاف نظر نہیں آتا۔ چنانچہ معاملات میرٹ کے بجائے دیگر ترجیحات کے محتاج بنتے جا رہے ہیں۔

پچھلے کئی برس سے سندھ حکومت کی انتظامی مشینری جس طرح اپنے فرائض میں فاش غفلتوں کی مرتکب ہوتی ہوئی نظر آئی ہے۔ اس طرز عمل نے حکومتی اداروں سے عوامی اعتماد کو تیزی سے متزلزل کیا ہے۔ چنانچہ عوامی سطح پر یہ رجحان تیزی سے پروان چڑھہ رہا ہے کہ حکومت اپنا فرض سمجھ کر کوئی مسئلہ حل نہیں کرے گی، بلکہ احتجاج کے ذریعے ہی حکومت کو مسائل کے حل کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔

پچھلے دنوں قتل کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے مقتول گھمن بھیل کے ورثاء کو کئی گھنٹے تک روڈ پر لاش رکھ کر احتجاج کرنا پڑا۔ اسی طرح ارشاد رانجھانی کیس کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے بھی سول سوسائٹی نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا، تب جاکر ایف آئی آر درج ہوئی۔ ینگ ڈاکٹرز نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے طویل احتجاج کیا اور مریضوں کو بیتحاشا تکالیف جھیلنا پڑیں، تب جاکر حکومت نے ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے مذاکرات کیے۔

اسی طرح ٹیچرز نے کراچی میں بہت بڑا احتجاج کیا اور پولیس تشدد اور پکڑ دھکڑ کے بعد ہی سندھ حکومت نے سنجیدگی سے ان کی بات سنی۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب متاثرین کو اپنے بنیادی انسانی حقوق سے منسلک زیادتیوں کے معاملات میں انصاف کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ معاملات کو اپنے جائز رنگ میں دیکھنے کے بجائے، احتجاج کی لوکیشن، شرکاء کی تعداد اور سول سوسائٹی سپورٹ کی نوعیت بھی مسئلے کے حل پر اثر انداز ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر تھرپارکر میں بلاک 2 پر کوئلے کی کھدائی کے دوران گوڑانو ڈiم کے متاثرین نے طویل عرصے تک احتجاج کیا مگر چونکہ اس احتجاج میں لوگوں کی بھاری تعداد شریک نہیں ہوئی تھی اور یہ احتجاج بڑے شہروں سے بھی دور تھا لہذا ایک گاؤں کے باسیوں کی دردناک آواز صحرائی ٹیلوں کے نیچے دب گئی ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے عوامی مسائل پر سندھ حکومت کو متحرک ہونے کے لیے احتجاج دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ حکومت کو اپنے فرائض بھی عوام اور سول سوسائٹی کو یاد دلانے پڑ رہے ہیں۔ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، متعلقہ حکومتی اداروں کو گہری نیند سے جگانے کی ذمہ داری بھی عوام اور سول سوسائٹی کو اٹھانا پڑتی ہے۔ کیا اب عوام کو اپنے ہر چھوٹے موٹے کام کے لیے، سول سوسائٹی سے مل کر احتجاج کے سہارے، سندھ حکومت کو اپنے فرائض یاد دلانے ہوں گے! ؟ کیا اب سندھ حکومت نے فوری حل طلب عوامی مسائل پر بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).