کیا یہ بدن میرا تھا


میری ڈھیر ساری کتابوں کے اندر سے جھانکتی ایک کتاب دیگر کتابوں سے علحدہ اپنی دنیا میں مگن تھی کہ ایک روز اپنی تمام تر مصروفیات بالاطاق رکھ کر میں نے اس کتاب کو کھوجنے کا ارادہ کیا۔ کتاب کا عنوان کتاب کا تعارف تھا اور پھر سرورق سے بھی اندازہ ہو گیا کہ روایتی افسانوں سے ہٹ کر اس مجموعے میں کچھ مختلف پڑھنے کو ملے گا۔ کیا یہ بدن میرا تھا صبا ممتاز کے افسانوں پر مشتمل ایک گلدستہ پے۔ جسے پڑھنے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصنفہ کا ادبی قد کاٹھ خاصا بلند ہے۔

اب جب کہ میں ان تمام افسانوں کو پڑھ چکی ہوں اور ان میں موجود لفظوں کا درد اپنے وجود کے اندر اتار چکی ہوں تو مجھے اس دنیا سے باہر آنے میں کچھ وقت لگ رہا ہے۔ کبھی میرے کانوں میں راگنی کی آواز گونجتی ہے جو اپنی تباہی پر نوحہ کناں ہے اور کبھی بے زبان جانوروں کے آنسو مجھے سکون سے سونے نہیں دیتے۔ عورت محض مرد کی جنسی تسکین کا ذریعہ تو نہیں ہے مگر مرد اسے اکثر اپنی ہوس پوری کرنے کا سامان سمجھتے ہیں۔ کیا یہ بدن میرا ہے کی عورت بھی ان ہوس پرست مردوں سے اپنا آپ بچانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتی۔

کبھی ان کی لچھے دار باتوں میں آکر خوشی خوشی اپنا آپ ان کے سپرد کر دیتی ہے اور کبھی ان کے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو بیان کرتے صبا ممتاز کے کاٹ دار جملے قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ افسا نے نہیں ہیں، یہ نوحے ہیں، یہ عورت کے آنسو ہیں جنہیں صبا نے اپنے قلم کی زبان دی ہے۔ صبا نے اس طبقے کی عورت کے درد کو لفظوں کی زبان دی ہے جسے ہمارے بہت سے لکھنے والے خاص طور پر خواتین زیر بحث نہیں لاتیں۔

مصنفہ نے ان افسانوں میں جو انداز تحریر اختیار کیا ہے۔ اس سے اس تصور کی بھی نفی ہوتی ہے کہ ایک مخصوص پیراے کے اندر رہتے ہوے خواتین ہمیشہ گھریلو کہانیاں ہی تخلیق کر سکتی ہیں۔ صبا کا قلم نہایت بے باکی سے تمام رشتوں کی حقیقتیں بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ صبا کی عورت ورکنگ وومن ہے جس کی تھکن کو صبا نے کاغذ پر منتقل کیا ہے۔ معاشرے کے پسے ہوے طبقے کے درد کو لفظوں کی زبان دینے پر صبا ممتاز بانو خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اسی اندازتحریر کے ساتھ صبا کا تخلیقی سفر جاری رہے گا اور ہمیں مزید بہتر تخلیقات پڑھنے کو ملیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).