موبائل کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھونے والی ایک بچی کی کہانی
چند روز قبل آفس سے گھر آئی تو معلوم ہو ا کہ پچھلی گلی میں جو مخمل نام کی لڑکی رہتی تھی انتقال کر گئی ہے۔ تعزیت کی غرض سے میں فورًا اُن کے گھر جانے کہ لیے نکلی، ابھی میں اُس کی گلی کے کونے پر ہی تھی کہ مجھے یاد آیا کہ میں نے ابھی ہفتہ بھر پہلے ہی تو اس 14 سال کی بچی ٗمخمل ٗکو یہاں کھڑے دیکھا تھا جب وہ موبائل فون پرکسی سے بات کر رہی تھی، وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔
موبائل سے یاد آیا یہ سائنس کی بہترین ایجاد ہے۔ جس سے دنیا کے کسی بھی کونے میں کون کیاکررہا ہے، کس حال میں ہے سب پتا لگ جاتاہے۔ خیر میں بذاتِ خوداس ایجاد کو پسند کرتی ہو ں کیونکہ کبھی کسی وجہ سے دیر ہوجائے، یا کہیں پھنس جائیں تو بذریعہ فون (موبائل فون) گھر والوں کو آگاہ کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ پریشان نہ ہوں۔ واقعی اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار ناگزیر ہے۔
مگریہ بھی درست ہے ہر چیز اپنے وقت پر اچھی لگتی ہے۔ خیر بات کہاں سے کہاں چلی گئی میں یہ ہی سوچتے ہوئے کہ اچانک اچھی بھلی صحت مند لڑ کی کو ایسا کیا ہوگیا جو معلوم بھی نہیں ہوا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی اس ہی سوچ میں، میں اُن کے گھر پہنچ چکی تھی۔
قصہ مختصر اُن کے کرایہ دار سے ملنے والی معلومات کہ مطابق بچی کہ کلاس میں اول آنے کی خوشی میں والد نے موبائل فون گفٹ کیا تھا جس میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود تھی جس کہ ذریعہ اُس کی فیس بُک پر کسی لڑ کے سے دوستی ہوئی، دوستی پسند میں، پسند محبت میں تبدیل ہوئی اورپہلے غیر مہذب گفتگو اور تصاویر، پھر نامناسب ویڈیوز کاآغاز ہوا، پھرملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ملاقاتیں کبھی طویل دورانیہ کی نہیں ہوئیں، 4 دن پہلے اچانک اسکول سے جلدی گھر آئی اور اُس کی طبعیت خراب ہوئی ماں کرائے دار کے ساتھ بھاگم بھاگ اسپتال لیکرپہنچنی جہاں پر معلوم ہوا کہ اس بچی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بچی اس واقعہ کی تاب نہ لاتے ہوئے کل رات انتقال کر گئی۔
کرائے دار نے مزید بتایا کہ باپ نے عزت بچانے کے لیے اپنے رَسُوخ استعمال کر کہ اس معاملے کو دبادیا، اور بات کی جائے بچی کی تو بچی اِن چار دنوں میں شدید اذیت میں مبتلارہی۔
آہ سب سے ملنے جلنے والی یہ لڑ کی سب سے الگ تھلگ اپنے موبائل پر لگی رہتی تھی، جس پر ماں اسے بار بار ٹوکتی تھی تو وہ بات کو ٹال جاتی تھی پچھلے کچھ دن سے وہ بہت پریشان تھی۔ دوستوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ اُس دن اسکول گئی ہی نہیں تھی بلکہ اسکول سے کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر کسی کے ساتھ چلی گئی تھی۔
اس طرح کے دل دہلا دینے والے واقعات کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں جیسے وہ بچی کس کے ساتھ گئی؟ کون لوگ تھے؟ کیا کوئی کسی کی محبت میں ایسے ہی گرفتار ہو کر اُس کے ہاتھ کی کٹ پتلی بن جاتا ہے؟ اس بات کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ لڑکا جس نے اُس کو جھوٹے وعدوں میں پھنسایا، وہ لڑکی جو بنا سوچے سمجھے کسی اجنبی کی باتوں میں آگئی یا والدین جو اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر زمانے کے ساتھ چلتے دیکھنے کی خواہش میں اُن کی ہر جائز اور ناجائز ضرویات کو پورا کرتے ہیں یا پھر سائنس اورٹیکنالوجی کی ایجاد موبائل یا انٹرنیٹ اُف کتنے سوال ہیں۔
خیر جو بھی ہے میں خود موبائل اور انٹرنیٹ یوزرز میں سے ہوں اور اس کی افادیت اہمیت اور عظمت کا اعتراف کرتی ہوں مگر اس بات کے میں بھی خلاف ہوں کے وقت سے پہلے بچوں کو وہ مادی سہولیات دے دی جائیں جن کا استعمال ان کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
ہر بات ہر کام کی ایک عمر اور وقت ہوتاہے۔ مگر اب ہمارے معاشرے کا یہ حال ہوگیا ہے کہ کسی کام کی کو ئی عمر ہی نہیں ہے چھوٹے چھوٹے لڑ کے موٹر سائیکل چلاتے روڈوں پر دنداناتے پھر تے ہیں اور حادثات کا شکار ہوتے ہیں اس ہی طرح کم عمری میں ٹیکنالوجی کا استعمال وقت سے پہلے بچوں کو بڑا کر رہا اور وہ عشق و محبت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
یہ درست ہے ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضروت ہے بچوں کو اسکول سے کالجوں سے پروجیکٹ اور اسائمنٹ اور ہوم ورک ملتا ہے جو اب جدید ٹناک لوجی (انٹر نیٹ) کے بنا کرنا ممکن نہیں ہے مگر ذرا سوچیں کیا انٹرنیٹ سے پہلے سب نہیں ہو تا تھا؟ پہلے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، پائلیٹ، استاد نہیں بنتے تھے؟ جواب ہے ہاں بنتے تھے۔
انٹر نیٹ کے آزادانہ استعمال نے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بہت نقصان پہنچایا، وہ اب سوچنے کے بجائے کوگل کرنے کو ترجی دیتے ہیں کیونکہ سوچنے میں وقت ضائع ہوتا ہے اور فیسبُک اور دیگر شیطانی کام کرنا بڑے ثواب اور خیر کا کام ہے۔ رہی سہی کسر اِن موبائل فونز نے پوری کر دی ہے جس کی بدولت ہر وقت ہر شخص کے ہاتھ میں یہ شیطان کی ڈبیہ ہے۔
کبھی سوچا آپ نے کہ ہم مغرب کی تقلید میں لگ کر آزادی کے اور سہولیات کے نام پر اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا خود گلہ گھونٹنے کے ساتھ ساتھ ان کو بے حیائی اور بے شرمی کے لیے مواقع بھی فراہم کر رہے جس کی وجہ سے بے رہ روی معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے اورقصوار ہم نوجوان نسل کو، سوشل میڈ یا اور انٹر نیٹ کو ٹہرا تے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کے والدین جب کو ئی بھی نئی چیز بچوں سے متعارف کر وائیں ساتھ ساتھ اس کے فائدے اور نقصان سے بھی آگاہ کریں بچو ں کو موبائل فون انٹر نیٹ کی سہولت ضرودر دیں مگر عمر کے اُس حصہ میں جس میں ایک تو وہ خود اپنا اچھا برا سمجھ سکیں اور دوسرے آپ بھی اُن کواچھا برا، نیکی اور بدی، گناہ اور ثواب، خیر اور شر، جنت اور دوزخ اور اللہ کی رضا اور اس کے محبوب کی محبت کا درس دے چکے ہوں، اُن کو صحیح اور غلط سمجھا چکے ہوں۔
اس کے بعد بھی والدین کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی اس کہ بعد بھی اپنے بچوں پر (خواہ وہ لڑ کی ہو یا لڑ کا) ، اس کی ہر سرگرمی پر نظر رکھناcheck and balance رکھناوالدین کا فرض ہے۔ بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے، خود دیکھیں کہ اگر آپ کا بچہ زیادہ دیر گھر سے باہر ہے تو کیوں ہے۔ اگر سب موجود ہیں اور وہ ایک کمرے میں موبائل ہر لگا ہے / یا لگی ہے تو کیوں لگی ہے آخر آپ کہ بچوں کا ایسا کیا اکیلا پن ہے جو وہ گھر والوں سے بانٹنے کے بجائے باہر والوں سے share کر رہے ہیں۔
اُن کی سرگرمیوں میں پسند ناپسند میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیں، ان کے اسکول، کالج اور یونیورسٹی جا کر visit کریں دیکھیں ان کے دوست کون ہیں آخر وہ وہاں کیا کرتے ہیں، چاہے اسکول کا بچہ ہو، کالج یا یونیورسٹی کا نوجوان والدین کے لیے چھوٹا ہی ہو تا ہے لہٰذا اُن پر، ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
میری والدین سے گزارش ہے خود کو فکر معاش سے ہٹا کر اور گھریلو زندگی سے وقت نکال کر اپنے بڑھتے بچوں سے دوستی کیجیے اُنکی سرگرمیوں، اُن کے خیالات اور نظریات جاننے کی کوشش کیجیے ایسا نہ ہو کے وہ کسی شر پسند عناصر یا جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگ کر اُن کا آلہ کاربن جائیں یا کسی ہوس کے پجاری کی جھوٹی محبت کہ جال میں پھنس کر اپنی عزت اور زندگی دونوں گنوابیٹھیں۔
- جب گناہ کرنے پرہنگامہ نہیں تونکاح کرنے پرکیوں ؟ - 11/02/2020
- کیا حریم شاہ کا انجام بھی قندیل بلوچ جیسا ہوگا؟ - 15/01/2020
- صلاح الدین اس کھوکھلے نظام کو منہ چڑا کر چلا گیا مگر کیا یہ آخری ہے؟ - 08/09/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).