علمی و فکری میلہ کی پزیرائی


کسی بھی معاشرے کاحسن کا اس کا علمی و فکری اثاثہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ کام اسی صورت میں ہوتا ہے جب ریاست، حکومت، ادارے او ررائے عامہ بنانے والے افراد او رادارے مل کر علمی او رفکری ماحول کو پیدا کرنے او راسے مضبوط بنانے میں اپنا اپنا موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ علمی او رفکری ماحول لوگوں کو سیکھنے، سکھانے، ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے سمیت معاشرے میں ایک متبادل فکری سوچ او ر فکر کو بالادستی دیتی ہے۔

معاشرے کی اصل ضرورت دنیا میں ہونے والی نئی نئی تبدیلیوں سے آگاہی او را س کی مدد سے اپنے لیے ترقی کا راستہ تلاش کرنے سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ کام ایک بڑی فکری اور مالی سرمایہ کاری سے ہی ممکن ہوتا ہے او راس کام کا تجزیہ کرتے وقت ہم قومی سطح پر اپنی ترجیحات کا تعین بھی کرسکتے ہیں کہ ہم عملی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں اب علمی اور فکری میلوں یا مجالس کا اہتمام بہت زور شور سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بالخصوص پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں اس کے کئی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے او رجو لوگ بھی ایسی کوششوں کا حصہ ہیں ہمیں ہر سطح پر اس کی پزیرائی کرنی چاہیے۔ یہ کام محض بڑے شہروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا اہتمام چھوٹے شہروں میں بھی کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ وہاں بھی ایسا شاندار صلاحیتوں پر مبنی علمی و فکری اثاثہ موجود ہے جسے سب کے سامنے پیش بھی کیا جانا چاہیے او روہاں کی نئی نسل کو سیکھنے کے مواقع بھی ملنے چاہیے۔ اس جمود کو توڑنا ہوگا کہ یہ فکری و علمی میلے محض بڑے شہروں تک کا کھیل ہے او راس کو دیگر شہروں تک جوڑنا منتظمین کا ایجنڈا نہیں۔

پچھلے دنوں لاہو رمیں مینجمنٹ ہاوس کے سربراہ اعجاز نثار او ران کی ٹیم کی سربراہی میں ایک تین روزہ LearnFest 2109 کا اہمتام کیا گیا جو 22۔ 24 مارچ کو لاہو رمیں منعقد ہوا۔ اعجاز نثار ایک بہت کی قابل او ربلاصلاحیت شخصیت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں کچھ کرنے کی جنون او رشوق بھی رکھتے ہیں۔ خاص طو رپر ان کی خواہش ہے کہ وہ نئی نسل میں سیکھنے اور سکھانے کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرکے ایک ایسا علمی ماحول پیدا کرسکیں جو نئی نسل کو آگے بڑھنے کے لیے درست سمت، سوچ اور فکر فراہم کرسکے۔

وہ معاشرے کے پڑھے لکھے کامیاب افراد جن کا تعلق مختلف شعبو ں سے ہے ان کے درمیان او رنئی نسل کے درمیان ایک مکالمہ کی مدد سے سیکھنے او رسکھانے کے کلچر کو پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اسی سوچ کی بنیاد پر انہوں نے لاہور میں مینجمنٹ ہاوس کی بنیاد رکھی او روہاں موجود ماحول خود اس کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ نئی نسل اس اہم ادارے اور وہاں موجود افراد سے کئی حوالوں سے استفادہ حاصل کرسکتی ہے۔

اس تین روزہ فیسٹول میں ایک ہی وقت میں مختلف فورمز پر مختلف ماہرین او رسننے والوں کا اکٹھا ہونا او رتجربات کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مکالمہ کی مدد سے اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کرنا کمال کا کام تھا۔ مختلف ہالز او ررومز میں مختلف ماہرین نے بہت سے موضوعات پر مجالس کو سجا رکھا تھا۔ علم، ادب، کلچر، کاروبار، انسانی ترقی، کامیابی کی راہیں، میڈیا، معاشیات، سماج، سفرنامہ، ماحولیات، زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا، تربیت کا عمل، اچھا لکھاری بننے کا عمل، شوق مطالعہ، خواتین او ربچوں کے مسائل، تحقیقی عمل، امن رواداری کا کلچر، فلم، ڈرامہ، شاعری، فلسفہ جیسے اہم معاملات پر فکری نشستوں کا اہمتام کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محض مکالمہ یا بات چیت ہی نہیں تھی بلکہ مختلف فلموں کو دکھا کر بھی بحث و مباحثہ کی فکر کو آگے بڑھایا گیا۔ ان نشستوں میں بڑے بڑے کاروباری شخصیات کی موجودگی او راپنی کامیابی کے تجربات کو پیش کرنے کا عمل بھی نئی نسل کو بہت کچھ سیکھنے کا باعث بنا۔

سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس میں نئی نسل کے لوگوں کی بھرپور شمولیت تھی جو اس کا بات کا احساس دیتی تھی کہ اگر نئی نسل کے لوگوں کو زیادہ اچھے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ ان سے سیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ خاص طو رپرلڑکیوں کی موثر شرکت سے بھی خوشی ہوئی کیونکہ لڑکیوں کی موثر شمولیت اور ترقی کے عمل میں ان کو شامل کیے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کے اصل اہداف کو حاصل نہیں کرسکتا۔ مینجمنٹ ہاوس او راعجاز نثار کا کمال یہ ہے کہ وہ اس میلہ سے ہٹ کر پاکستان کی قومی ترقی او راس میں مثبت عمل کی مدد سے انسانی وسائل کو بنیاد بنا کر ایک بڑا ماڈل رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم محض ملک میں اور باہر کے تجربات کو بنیاد بنا کر ہی اپنے ایجنڈے کو ترتیب دے کر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا اظہا رکرکے عملی اقدامات پر توجہ دیں تو ہم بہت بہتر نتائج جلد حاصل کرسکتے ہیں۔

علمی اور فکری مباحثوں کی اہم خوبی اس کا ماحول ہوتا ہے۔ کیونکہ جتنا زیادہ دوستانہ ماحول ہوگا اتنا ہی لوگ ایک دوسرے کے سے بغیر کسی خوف کے سیکھ سکتے ہیں۔ یہاں LearnFestکی قیادت او رٹیم کو مبارکباد دینی ہوگی کہ جن میں علی عباس، ماریہ توقیر، اظہر وڑائچ، نومان، حسین، مناہل اور فرحین شامل تھے۔ کیونکہ ا س ٹیم نے جس انداز سے سب کو معاونت فراہم کی وہ قابل قدر ہے۔ چھوٹے چھوٹے گروپس میں مختلف لوگوں کا بیٹھنا اور مستقبل کی پیش بندی کرنا او رنئی نئی فکر کو بنیاد بنا کر کچھ نیا پن تلاش کرنے کا عمل واقعی ہمیں بہت کچھ سیکھنے میں مدد دیتا ہے۔ کیونکہ اب واقعی سیکھنے کے لیے ہمیں بھی جدید طور طریقوں کو بنیاد بنا کر روایتی طریقوں سے جان چھڑانی ہوگی۔

اس تین روزہ علمی میلہ میں فلم کو دکھانا او رٖپھر اس کے بعد اس پر بات چیت کا ماحول بہت جاندار تھا او رفلم یا ڈرامہ کی مدد سے آگاہی او رنئی نئی بحثوں کو جنم دینا او ربچوں میں مثبت او رتنقید ی پہلووں کو اجاگر کرنے کی کوشش واقعی ہمیں امن او ررواداری پر مبنی معاشرے کی طرف لے جانے میں مدد فراہم کرے گی۔ خود والدین کو بھی سیکھنا ہوگا کہ وہ محض بچو ں پر امتحانات، نصابی کتابوں، ٹیوشن کا بوجھ ڈالنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں یا ان پر زور دیں کہ وہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں اور اس طرح کے علمی و فکری میلوں کا حصہ بن کر اپنے اندر قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔ تعلیمی ادارے اس عمل میں آگے بڑھیں اور ایسے سیکھنے کے ماحول کو بنیاد بنا کر نئی نسل کو بہتر مواقع فراہم کریں۔

اعجاز نثار اور ان کی ٹیم کو چاہیے کہ وہ اس علمی او رفکری عمل کو محض ایک یا دو میلوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس میں ایسا تسلسل پیدا کریں کہ وہ تمام ادارے جو انسانی شخصیت سازی، تربیت، ترقی کے عمل میں شریک ہیں ان کے ساتھ مل کر ایک ایسی مہم کو چلائیں جو واقعی نئی نسل کو انفرادی عمل کے ساتھ ساتھ اجتماعی عمل کا حصہ بنائے۔ کیونکہ ہمارے ملک کو نئی نسل کے ایسے سفیر درکار ہیں جو مختلف شعبوں میں نہ صرف ذاتی ترقی کریں بلکہ ان کی ترقی کا عمل ملک کو بھی فائدہ پہنچاسکے۔

یہ جو نئی نسل میں گٹھن، بے چینی، اضطرابیت او رمایوسی سمیت ذہنی دباؤ کا عمل ہے اس کو ختم کرنا او ران میں مثبت سوچ او رفکر کو اجاگر کرنا واقعی ایک بڑا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ خاص طو رپر ہم نئی نسل میں کیسے رواداری پر مبنی کلچر، سوچ او رفکر کو پیدا کرنے او رمعاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سمیت ایک دوسرے کو قبولیت نہ کرنے کے عمل کو روک سکیں تو اس سے ہم ایک مہذہب اور ذمہ دار معاشرے کی فکر کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔

وہ تمام ادارے جو انسانی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں ان کو اس مینجمنٹ ہاوس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اسی طرح اگراعجاز نثار اگر اپنی ان سرگرمیوں میں تسلسل پیدا کرسکیں اور ایک ایسا ماہرین کا پول بنانے میں کامیاب ہوجائیں جو مختلف شعبوں میں اپنی اپنی مہارتوں کوبنیاد بنا کر دوسروں کے ساتھ تبادلہ کرنے کے لیے تیار ہوں تو اس سے بڑی کوئی خدمت نہیں ہوگی۔ اس تین روزہ عملی میلہ نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ یہاں کوئی ٹیلنٹ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اس نئی نسل کو ٹیلنٹ کو مواقع او رماحول کی فراہمی کا ہے۔ کیونکہ اگر ایک اچھے ماحول کو بنیاد بنا کچھ کرنے کا موقع ملے تو یہ ہی نسل قومی ترقی کے دھارے میں تیزی لاسکتی ہے۔ ویسے بھی ہمارا مستقبل اسی نئی نسل سے جڑا ہوا ہے او ران ہی کو قومی دھارے میں لانا ہماری ضرورت ہے اور یہ ہمارا ایجنڈا ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).