دم توڑتی امیدیں


18 اگست 2018 کو جب عمران خان نے پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تو، مجھ ناچیز سمیت بہت سو کو ایک عجیب سا اطمینان تھا کہ شاید اب، 70 سالوں سے ستائے ہوئے عوام کی کچھ دادرسی ہو سکے گی۔ لیکن یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 7 ماہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو جانچنا اور اس پر اپنی آراء قائم کرنا سراسر زیادتی ہے۔ لیکن حضور، 7 ماہ کسی بھی حکومت کی سمت کو جانچنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

ان 7 ماہ میں کوئی ایک بھی قانون بتا دے، جو قومی اسمبلی میں پیش ہوا ہوں۔ کسی ایک بھی قانون میں تبدیلی کا بل آیا ہوں، وہ بات الگ ہے آپ کا نعرہ ہی تبدیلی تھا۔ ان 7 ماہ میں کوئی بھی ایک ایسا اقدام، جس سے ہمیں ’نئے پاکستان‘ میں آنے کی پیشگی اطلاعات آ رہی ہوں۔ لیکن ان 7 ماہ میں کچھ ایسے واقعات ضرور ہوئے، جو ہمیں پرانے پاکستان کی یاد دلاتے رہے۔ چاہے اب آپ ڈی پو او پاکپتن کی بات کر لے یا سانحہ ساہیوال کے بعد ہونے والی پیش رفت پہ، نا اہل لوگوں کو وزارتوں سے نوازنے کی بات کر لے یا مشرف کی کابینہ میں شامل پرانے چہروں کو اپنی نئی کابینہ میں شامل کرنے سے لے کر، ایک ایسے بندے کو وزیر اعلیٰ بنا دینے تک جو شاید اپنا حلقہ بھی سنبھال نہ سکتا ہوں۔ یہ سب قصے تو پرانے پاکستان کہ تھے کہ نئے پاکستان میں کہاں سے آ گئے۔

جناب وزیر اعظم صاحب آپ کی نیت پہ کسی کو شک نہیں، لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافہ، روپے کی گرتی قیمت، گیس اور بجلی کے بلوں میں کمر توڑ اضافہ اور بے روزگاری پہ قابو پانے کے لیے، صرف نیت نہیں بلکہ پالسیوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ لیکن ابھی تک نہ کوئی پالیسی آپ کی طرف سے آئی نہ آپ کہ وزراء کی طرف سے۔ آپ نے لاکھوں نوکریاں دینے کا وعدہ کیا، پر ہزاروں بیروزگار ہو گئے۔ آپ نے لاکھوں گھروں کی بات کی لیکن آپ نے لوگوں کے بنے کاروباروں اور گھروں کو بھی مسمار کر دیا۔

قبضہ خوروں سے زمین واگزار کروانے کے چکروں میں کئی غریبوں کو بھی اپنی زمین سے ہاتھ دھونا پڑ گیا۔ وہ بھی یہ سوال کر رہے ہیں اگر ملک ریاض کو پیسے لے کہ چھوڑا جا سکتا ہے تو کیا ہمارا صرف یہی قصور ہے کہ ہمارا تعلق اس ملک کہ مظلوم طبقے سے ہیں۔ انصاف کے نام پہ ووٹ لینے والی جماعت نے سانحہ ساہیوال کے انصاف کا جنازہ خود اپنے کندھوں پہ اٹھائے۔ اگر آپ بھی اس ملک کے اشرافیہ، بیوروکرٹیس، چوروں، سانحہ ساہیوال کے قاتلوں کے سامنے بے بس ہے، تو کہاں ہے وہ نیا پاکستان۔ اس سے اچھا تو ہم پرانے پاکستان میں ہی تھے، کم از کم ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کے نام کا دھوکا تو نہ تھا۔

خان صاحب، آپ نے اور آپ کی جماعت نے ’تبدیلی‘ لانے کی بہت کوششیں تو کیں، لیکن لگتا ہے، یہ تبدیلی صرف حکومت میں موجود لوگوں کی تبدیلی کی حد تک ہی محدود تھیں۔ اگر آپ واقعی ’تبدیلی‘ لانے چاہتے تو آپ کے پاس ہر مسئلے پر ان کے حل ہوتے، پالسیاں ہوتی۔ لیکن افسوس ان مسئلوں کو جن کی نشاندھی آپ خود ہی کرتے رہے، ان کا بھی ’way forward‘ آپ کے پاس موجود نہیں۔ اگر موجود ہے بھی، لیکن ابھی تک نظر آتا دکھائی نہیں دیتا۔

خان صاحب، اس قوم کو آپ سے بہت آمیدیں تھی، جو شاید اب دم توڑتی جارہی ہے۔ اس قوم کے حوصلے آپ کی کارکردگی کو دیکھ کر شکن ہوتے جارہے ہیں۔
خدارا کچھ کیجئے، خدارا کچھ کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).