میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا


وزیراعظم عمران خان گھوٹکی میں ایک اجتماع سے خطاب میں فرماتے ہیں کہ نواز اور زرداری جب تک قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس نہیں کریں گے تب تک میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اس سیاسی بیان کو سن کر ماضی کی چند تلخ یادیں نظروں کے سامنے آگئیں۔ ہم کچھ بھی کرلیں لیکن تاریخ کے حقائق مسخ نہیں کرسکتے۔ نوّے کے دہائی سے لے کر نواز شریف کی دوسری مرتبہ انتخاب تک ملک میں سیاستدانوں کی اقتدار تک رسائی کے لئے جو تاریخی زور آزمائی ہوئی اس کا نقصان آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔

یہ ہمارا ایک قومی المیہ ہے کہ 88 ء سے لے کر 97 ء تک ملک میں چار مرتبہ انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں ملک کو فائدہ تو بالکل نہیں ہوا البتہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو باریاں ضرور بدلتے رہے۔ ان نو سالوں میں جو بنیادی چیز ہماری سیاست کا اہم جز بن گئی وہ سیاستدانوں کے مفادات سے بھری ہوئی سیاست اور عوام کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روند ڈالنے کی عادت ہے۔ دنیائے سیاست کا یہ غلیظ جرم آج تک ہماری بنیادوں کو دھیمک کی طرح چھاٹ رہا ہے۔

1988 ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بنا جس میں نو پارٹیاں شامل تھیں لیکن انتخابات میں جیت بے نظیر کی ہوئی۔ ایک ٹرینڈ جس کا بننا بہت ضروری تھا آزادی کے بعد کہ سب مل کر پاکستان اور عوام کے لئے ہر قسم کے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر خدمت کریں گے کو کبھی بھی سیاست کا محور نہیں بننے دیا گیا۔ بے نظیر کے خلاف اس اتحاد نے انتخابی مہم میں اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ اس کی ذات ہی پر سوالیہ نشان لگ گئے۔ یہ اتحاد کس نے اور کس مقصد کے لئے بنایا تھا آج تک معلوم نہ ہوسکا۔

دو سال بعد دوبارہ انتخابات ہوئے تو نواز شریف وزیر اعظم بن گئے لیکن اب باری تھی بے نظیر کی جس نے ہر ممکن کوشش کی کہ حکمران جماعت کو نیچا ثابت کیا جائے اور جس میں وہ کامیاب بھی ہوئیں۔ صدر غلام اسحق خان نے اسمبلیاں توڑ دی جس کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا اور اسی طرح نواز شریف اپنے عہدے پر برقرا رہے۔ اس وقت کے انتہائی کشیدہ حالات میں فوج کے سربراہ جنرل وحید کاکڑ نے اپنا کردار ادا کیا اور جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بن گئیں۔

کچھ ہی عرصہ بعد صدر نے دوبارہ اسمبلیاں توڑ دی اور ملک میں دوبارہ عام انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے دوبارہ وزیر اعظم بن گئے لیکن نتیجہ کیا رہا وہی ڈھاک کے تین پات۔ بار بار انتخابات کی صرف ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ عدم تعاون اور دشمنی کی حد تک ناپسندیدگی۔

اس بار فوج کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے محاذ کھولا گیا جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لیا گیا اورپرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف بنادیا گیا۔ کارگل کا ایڈونچر بھی اسی دور میں ہوا جس کا آج تک پتا نہیں کہ کیا نتیجہ نکلا تھا۔ سپریم کورٹ پر حملہ بھی اسی دور میں کیا گیا جس کا ذکر گوہر ایوب نے اپنی کتاب ”ایوان اقتدار کے مشاہدات“ میں بھی کیا ہے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جنرل (ر) شاہد عزیز اپنی کتاب میں ”یہ خاموشی کب تک“ میں لکھتے ہیں کہ لوگ فوجی سربراہوں کو چوڑیاں تک بطورمذاق بھیجتے تھے۔

اس بار نواز شریف خود کو بالکل مغلیہ دور کا کوئی بادشاہ سمجھ بیٹھے تھے اور یہی وجہ تھی کہ بارہ اکتوبر 1999 ء کو اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس پورے تمہید کا اگر ہم تفصیل سے مطالعہ کریں تو ہمیں ایک بات سمجھ آجائے گی کہ نقصان صرف پاکستان اور پاکستان کے عوام کا ہوا۔ عوام اس وقت بھی تبدیلی کو ترس رہے تھے اور آج بھی کسی نادیدہ قوت کے منتظر ہیں۔ عوام کے لئے ہمیشہ بنیادی تبدیلی ضروریات زندگی کی دستیابی رہی لیکن حکمرانوں نے ہمیشہ دھوکے ہی دیے۔

ہم اگر اس دورانیے کا سرسری جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ ان نو سالوں میں عوام نے کبھی بھی اپنے پسندیدہ لیڈر کا سڑکوں پر دفاع نہیں کیا جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان پسندیدہ راہنماؤں نے عوام کے لئے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔ نواز شریف کا تو جب تختہ الٹ دیا گیا تھا تو سڑکوں پر عوام نے مٹھائیاں تک تقسیم کی تھیں۔ عوامی طاقت ساتھ نہ تھی اسی لئے تو کبھی لوگوں نے یہ احتجاج نہیں کیا کہ آخر کیوں ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔

اس پوری تاریخ سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہی ہوتے ہیں لیکن بنیادی اور مسلسل مسئلہ یہ رہا ہے کہ آج تک طاقت کے اس سرچشمے نے خود کو پہچاننے کی ذرہ بھر کوشش نہیں کی ہے۔

اب ہم آتے ہیں موجودہ وزیراعظم کی طرف جس کی تاریخ بھی کافی عجیب ہے۔

کرکٹ سے ابتداء کی اور پھر شوکت خانم سے ہوتے ہوئے وزیر اعظم بن گئے۔ آپ کا وزیر اعظم بننا ایک فطری عمل تھا کیونکہ عوام تنگ آچکے تھے باریاں بدلنے والوں سے۔ آپ جب اقتدار کی گدی پر نہیں بیٹھے تھے تو بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے لیکن پھر شاید وہی سانپ آپ کو بھی سونگھ گیا جس نے ہماری تاریخ میں بہت دفعہ ہمارے پرخچے اڑائے ہیں۔ آپ نے ملک کی تقریباً ہر چوراہے پر عوام کے سامنے اتنے بلند وبانگ دعوے کیے تھے کہ پورے پاکستان نے ہر تقریر کے بعد جذبات کے آنسو بہا کر سجدہ شکر ادا کیا تھا اوریہی وہ تاریخی غلط فہمی ہے جس کا ہم پچھلے ساتھ عشروں سے کئی دفعہ شکار ہوئے ہیں۔

حکومتوں کو فائدہ اس وقت ملتا ہے جس وقت عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسّر ہوں۔ بنیادی ضرورتیں وہ ہوتی ہیں جن کی دم سے زندگی کی گاڑی حرکت میں ہوتی ہے۔ آپ نے تو ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا اور ساتھ ساتھ پچاس لاکھ گھر بنانے کا لیکن زمانے بھر نے دیکھا کہ اوروں کی طرح آپ کی حکومت میں بھی لوگوں کو بے گھر کردیا گیا۔ آپ نے نوجوانوں کی بات کی تھی لیکن اوروں کی طرح آپ کی حکومت میں بھی نوجوان مایوس ہیں اور کل پرسوں جب آپ بھی تاریخ کے کوڑادان میں پھینک دیے جاؤگے تو ہر طرف مٹھائیاں بانٹی جائے گی۔

آج آپ بھی وہی بات کہہ رہے ہیں ”میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا“ جس کی وجہ سے بیسویں صدی کے آخری عشرے میں پاکستان کو بے تحاشا نقصان ہوا ہے۔ آپ بھی بے شک ایسا ہی کیجیئے لیکن ایک بار سوچیئے ضرور کہ کیا اس دفعہ آپ کے پاس عوام کی طاقت ہے؟ کیا آپ نے عوام کو ریلیف دیا ہے؟ اگر دیا ہے تو بے شک اس رنگ میں اتر جائیے جہاں اترنے کے بعد پاکستان کا ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔

آپ بے شک کرپشن کا خاتمہ کیجیئے لیکن عوام کو سولی پر چڑھا کر نہیں بالکہ ان کو ریلیف اینے کے بعد اپنی طاقت بنا کر۔

پاکستان کے عوام یہ جانتے ہیں کہ آپ ایک نڈر، بے باک اور کھرے انسان ہیں لیکن آپ تھوڑا بہت ماضی کو دیکھ لیا کریں کیونکہ ماضی سے سبق لینے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ آپ ذرا دیکھ لیجیے کوئی آپ کو ورغلا تو نہیں رہا۔ آپ اگر حقیقیت میں امر ہونا چاہتے ہیں تو اپنے وزراء کا لائف سٹائل بدل دیجیئے اور خود بھی ریاست مدینہ کا حکمران بنیئے کیونکہ آپ سے پہلے ایک اور بھی تھا جو یہی باتیں کیا کرتا تھا لیکن آج دیکھنے والوں کے لئے عبرت بن گیا ہے۔

آپ بے شک کرپٹ لوگوں کو الٹا لٹکا دیجیئے اور ان سے پاکستان کا لوٹی ہوئی ایک ایک پائی وصول کیجیئے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی سوچیئے کیا آپ ان لوگوں کے لئے کچھ کر رہے ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں آپ کے لئے گرمیوں میں، بارشوں میں اور طوفانوں میں کھڑے ہوکر نئے پاکستان کا خواب دیکھا کرتے؟ اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو پھر رنگ میں کھود جائیے لیکن آپ کا جواب اگر نفی میں ہے تو پھر ان پہلوانوں سے نمٹنے سے پہلے اپنی اصل طاقت کو مضبوط کیجیئیے اور یہ آپ اس وقت تک نہیں کرسکتے جس وقت ان کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں میّسر نہ ہوں۔

ہم جب تک ”میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا“ کے نعروں سے باز نہیں آئیں گے تب تک ایسے ہی پاکستان پر بے مقصد تجربات کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).