ہماری تعلیم اور مستقبل


پڑھ اس رب کے واسطے جس نے تجھے جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ ہم جو داعی ہیں کہ آج مغرب میں جو تعلیم ہے وہ ہمارا علم ہے۔ ہم جو داعی ہیں کہ آج سائنس جو ترقی کر رہی ہے وہ قرآن مجید کی مرہون منت ہے۔

ہم جو کہتے ہیں کہ دنیا میں اجالا نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وسلم اور اسلام کی وجہ سے ہے تو آج مسلمان کہاں کھڑا ہے۔ آج 1400 سال کے بعد اپنا تجزیہ کرنے کی اشد ضرورت میں صرف پاکستان کی بات نہیں کر رہا بلکہ پوری امت مسلمہ کی بات کر رہا ہوں۔ جون ایلیا کا فقرہ ہے کہ ہم پچھلے 1000 سال سے تاریخ کے دسترخوان پہ حرام خوری کر رہے ہیں۔ چلو ہم اس کو نہیں مانتے پھر بھی میرے خیال میں پانچ سو سال ایسے ہیں کہ ہم نے دنیا کو کچھ نہیں دیا۔

دنیا کیا ہم نے خود اپنے آپ کو کچھ نہیں دیا۔ ہم آج بھی اپنے بچوں کو اپاہج بنا رہے ہیں۔ ہم آج اپنے بچوں کی پیٹھ پہ بوجھ لاد کر سمجھتے ہیں ہم انہیں تعلیم دے رہے ہیں۔ مگر میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میں سمجھانے کی پوری کوشش کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا پورا کا پورہ نظام رٹا سسٹم پہ چل رہا ہے ہم نے مدت ہوئی یار کو مہمان کیے ہوئے کا مصداق تعلیم نظام میں تحقیق کا سلسلہ شاید موقوف کر دیا ہے تبی سالہا سال سے بس یہی چل رہا ہے کہ پوزیشن کیا آئی نمبرز کیا آئے فلاں کے بیٹے کے نمبر زیادہ کیوں آئے تمہارے کم کیوں آئے تم پڑھتے نہیں دھیان نہیں دیتے۔

بھائی یی سسٹم مجھے تو غلط لگتا ہے کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ الٹی سسٹم یا کلی سسٹم کہہ لیں جس کا مطلب ہے کہ آپ کا طالب علم یا بیٹا جو پڑھتا ہے وہ پرچے میں الٹی کر دیتا ہے۔ یا یوں کہہ لین کہ وہ پانی منہ میں لیتا ہے اور وہ گلے سے نیچے نہیں جاتا وہ بچہ کلی کر دیتا ہے جسے گرارہ بھی کہہ لیں۔

آج ہمیں شدت سے اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنے بچوں کے لیے خود گڑھے خود رہے ہیں ہم ان کو سیکھ دینے کی بجائے بس معجزات کا انتظار کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں ہم ان کو خود سے کوشش کر کے اپنی زندگی کی راہیں سلجھانے کی تعلیم دینی ہو گی۔ سمجھو کہ ان کو سوچنے کی تعلیم دینی ہوں کھونٹی سے باندھ کر رکھنے کی نہیں ہمیں آج سمجھنا ہو گا کہ وہ ہمارے بچے ہیں مگر آنے والا وقت ان کا ہے تو جب ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے تو ہم ا ا کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے ہیں اب ہمیں ان کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ باندھ کر رکھنے کی دنیا آج گلوبل ویلج بن گئی ہے آج ہمارے پاس بہت زیادہ سہولتیں ہیں۔ ہمیں بس اپنے بچوں کو ان کا درست استعمال کرنے کی سوچ دینی ہے تاکہ وہ دنیا کے چل سکیں نہ نوکریوں کی تلاش میں بھٹکتے رہیں۔ آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہمیں کرنا کیا آج پاکستان میں چار طرح کے تعلیمی نظام چل رہے ہیں۔

مدرسہ سسٹم
سرکاری سکول سسٹم
پرائیویٹ سکول سسٹم
اور اے لیول او لیول۔

آج ہر طرح کے پڑھانے والے ایک دوسرے سے میچ نہیں کرتے۔ آگے ہم ان سب سسٹم پہ بات کریں گے اور اس میں کیا کیا سوچا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

رائے منظور حسین
Latest posts by رائے منظور حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).