بزدار کی ناتجربہ کاری اور تاریخ کا ترازو


کہتے ہیں پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے، ماڑے بندے پر سب چڑھائی کرتے ہیں۔ شاید سچ ہی کہتے ہیں۔ گورننس کا بحران ہی دیکھ لیں جو لا اینڈ آرڈر سے لے کر معیشت کی سست روی اور ترقیاتی کاموں کے تعطل تک ہر جگہ درشن دیتا نظر آتا ہے۔ یہ منظر صوبوں اور مرکز میں ایک جیسا ہے۔ تاہم پنجاب میں بیڈ گورننس کی بڑی وجہ اگر وزیراعلی بزدار کی ناتجربہ کاری کو قرار دیا جاتا ہے تو وفاق میں ایسی ہی بدانتظامی پر بات کرتے ہوئے نقاد وزیراعظم عمران خان کے تجربے کی زنبیل کی تہی دامنی کا ذکر تک نہیں کرتے۔ حالانکہ انتظامی اور حکومتی تجربہ دونوں کا لگ بھگ ایک سا ہی ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گزشتہ پانچ برس خیبرپختونخوا میں اپنی پارٹی کی حکومت کی نگرانی کے سبب عمران خان اب خاطر خواہ انتظامی اور حکومتی تجربے کے حامل ہیں۔ عملی نتائج تاہم اس مفروضے کو ثابت نہیں کرتے۔ تعلیمی اصلاحات جن کا بہت غلغلہ تھا، ان میں برترین بدعنوانیاں سامنے آ چکی ہیں۔ پورے صوبے میں ایک میگا انفراسٹرکچر پراجیکٹ بی آر ٹی پشاور شروع کیا گیا جس کا حال بے حال ہے۔ صوبائی دارالحکومت کے بیچوں بیچ بی آر ٹی کی حالت اس ٹریکٹر کے انجن سی ہے جسے سائیکل کا مستری کھول کر پریشان بیٹھا ہو کہ اسے واپس جوڑے کیسے۔

لاگت 100 ارب سے تجاوز کر چکی، ڈیزائن میں متعدد خامیاں سامنے آ چکی ہیں۔ حد یہ کہ اسٹیشن تک تنگ تعمیر کیے گئے جہاں سے بس کا گزرنا محال ہے۔ شہر کا سیوریج کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور مبینہ طور پر تقریبا سات ارب کے کک بیکس بھی سامنے آ گئے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ ماس ٹرانزٹ منصوبوں کا بڑا مقصد یعنی سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنا اور یوں ٹریفک میں روانی لانا نہ صرف ناقص ڈیزائن کی وجہ سے پورا نہیں ہو گا بلکہ اس سے شہر میں ٹریفک کی روانی مزید متاثر ہو گی۔

تجربے کے باب میں دونوں کم و بیش ایک ”پیج“ پر ہی ہیں۔ وزیراعلی بزدار اور وزیراعظم خان میں اگر کوئی فرق ہے تو محض عوامی مقبولیت اور جسمانی مستعدی کا ہے۔ بزدار محض خان صاحب کے نامزد کردہ متعدد حکومتی عہدیداروں میں سے ایک جبکہ خان صاحب حکومتی جماعت کے بانی سربراہ اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے فیورٹ رہنما ہیں۔ تاہم عوام کی یہ پسندیدگی اور محبت جن کے حصے میں آئے ان کو اس کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔

خدا نخواستہ کسی ناکامی کی صورت میں بزدار تو چادر جھاڑ کر بارتھی جانے والی بس پر سوار ہو سکتے ہیں لیکن رہنما کے طور پر خان صاحب کو یہ سہولت میسر نہیں ہو گی۔ مقبول رہنما عوامی محبت کی قیمت کبھی جان سے گزر کر ادا کرتے اور امر ہو جاتے ہیں تو کبھی جان بچا کر مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مؤخر الذکر صورت بھی کسی حقیقی سیاست دان کے لئے موت کا سا عنوان ہی ہوتی ہے۔

ہماری سات دہائیوں کی مختصر ملکی تاریخ میں حکمرانوں کے احوال میں مذکورہ بالا دونوں صورتیں ملتی ہیں۔ صد شکر کہ لوگوں کے ووٹ لے کر ایوان اقتدار تک پہنچنے والے تمام تر کوتاہیوں کے باوجود کسی نہ کسی باب میں مؤخر الذکر صورت کا شکار ہونے سے محفوظ رہے۔ اگرچہ انجام کی پہلی قسم کا سامنا چند ایک کو رہا، کبھی دار و رسن تو کبھی زندان کی سلاخوں کی صورت۔ اس کا صلہ بھی ان کو مل گیا کہ عوامی محبت میں اب بھی حصے دار ہیں۔

جسمانی قوت اور مستعدی کے ضمن میں بزدار کے مقابلے میں سابقہ بین الاقوامی اتھلیٹ اور باقاعدہ کسرت کے شوقین فرد کے طور پر بھی عمران خان کا پلڑا بھاری ہے۔ یعنی مکے شُکے مارنے ہوں تو خان صاحب یقیناً جیت جائیں۔ بدقسمتی (در اصل خوش قسمتی) سے لیکن وہ دور چلا گیا جب مکوں سے فیصلے ہوتے تھے۔ انسانی بستیوں میں اجتماعی شعور بعد از خرابی بسیار اس فیصلے پر پہنچ چکا کہ مکالمہ ہی معاملات حل کرنے کی بہترین صورت ہے۔ کہیں یہ ادراک جامع اور جلدی ہوا تو کہیں جزوی اور تاخیر سے۔ ہم دوسری صورت والے ہیں تاہم پھر بھی کافی فاصلہ طے کر چکے ہیں۔

اب تو مکے والے خود بھی سامنے نہیں آتے۔ یہ بات علیحدہ کہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں والا منظر دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ تاہم دھڑلے سے آ براجنے والے اگر لکن میٹی کی اس کیفیت کو آ پہنچے ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی ارتقائی جمہوری پیش رفتوں، متعدد گمنام ہیروز کی قربانیوں اور فیصلے پر اختیار پانے کی جمہور کی اجتماعی خواہش کو ہی دیا جا سکتا ہے۔

آخری مستند مکے باز دیار غیر میں علیل، شفاخانے کے بستر تک محدود اور زیر علاج ہے۔ شفایابی کی دعا کرنی چاہیے انسانیت کے ناطے سے بھی اور ملکی مفاد میں بھی۔ وہ وطن لوٹ کر مقدمے کا سامنا کریں، اپنی دعویٰ کردہ بے خوف فطرت کا عملی ثبوت دیں اور بلا امتیاز انصاف کے نعرے کی ساکھ میں کچھ اضافے کا باعث بنیں۔ نظام عدل کی ذرا ”گُڈ وِل“ بڑھ جائے گی، لوگ اچھا فیل کریں گے۔ اس طرح ”فیل گُڈ فیکٹر“ کری ایٹ ہو گا جس کی حکومت کو ضرورت ہے اور حکومت کے ہمدرد ٹیکنوکریٹ اس کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔

لیکن حقیقی گڈول جناب وزیراعظم کی جانب سے جمہوری تمناؤں کو حقیقی اہمیت دینے، اس اہمیت کے لازمی نتیجے اور درکار عامل کے طور پر معیشت کی نمو کے اسباب پیدا کرنے اور نظام کے سٹیک ہولڈرز یعنی عوام اور ان کے نمائندوں سے مکالمے کی ثقافت کو فروغ دینے سے ہی پیدا ہو گی۔ وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر ترازو ایک ہی ہو گا جس میں آج اگر صرف بزدار تجربے کے باٹوں سے تولے جا رہے ہیں تو آج نہ سہی، چند برسوں بعد تاریخ یہی باٹ استعمال کر کے عمران خان کے حقیقی وزن اور قدر کا تعین کرے گی۔ تاریخ کا ترازو کھرا ہوتا ہے، وزن کرتے ہوئے نشیب فراز نہیں دیکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).