میں ایک دفاعی تجزیہ نگار بننا چاہتا ہوں


میں ایک دفاعی تجزیہ نگار بننا چاہتا ہوں۔ اس لئے نہیں کہ میرے پاس کرنے کے لئے کوئی اور کام نہیں رہ گیا اور نہ ہی اس لئے کہ میں شام کو بچوں کو پارک لے جاکر چھوڑ دیتا ہوں اور خود اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اس سسٹم کی گت بناتا ہوں۔ میں اس واسطے دفاعی تجزیہ نگار بننا چاہتا ہوں کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے پرائم ٹائم شوز میں بہت مانگ ہے۔

روزانہ دس میں سے کم از کم سات نامور شوز میں دفاعی تجزیہ نگار ضرور پائے جاتے ہیں۔ کوئی اینکر کسی ریسلر کے جیسے پس منظر میں بجتے گرجدار میوزک اور سائیڈ پوزز بناتے ہوئے شاندار ڈائیلاگز کے ساتھ بنے پروموز میں جتنا مرضی یقین دلانے کی کوشش کرے کہ صرف وہ ہی حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے منفرد انداز میں شو کرتا ہے، حقیقت یہی ہے کہ وہ ایک طے شدہ تین رکنی پینل والے گھسے پٹے فارمولے پر ہی چلتا ہے۔

ایک حکومتی رکن، دوسرا اپوزیشن سے اور تیسرا دفاعی تجزیہ نگار۔ موضوع کا تعلق سیاست کے علاوہ خواہ چادر اور چاردیواری جیسے سماجی مسلے سے ہو، سیریل کلر و ریپسٹ جیسے نفسیاتی مسائل سے ہو، رویت ہلال کا ہو یا کسی قدرتی سانحے سے متعلق گفتگو کرنی ہو، بات کبھی بھی اس تین رکنی پینل سے باہر نہیں جاتی۔ اب وطن عزیز میں سیاست دانوں کی تو بہتات ہے ہی، اپوزیشن میں ہر دوسرا پاکستانی ویسے ہی اپنا کردار ادا کرنے کے درپے رہتا ہے۔ باقی بچتے ہیں دفاعی تجزیہ نگار جو نیوز چینلز کی تعداد کی مناسبت سے تعداد میں بہت کم ہیں۔ اس اسکوپ کی وجہ سے بھی یہ شعبہ مجھے اپنی طرف کھینچتا ہے۔

وہ زمانے ججز بحالی تحریک سے پہلے کے تھے جب نیوز چینلز سیاست کے علاوہ سیاحت، مذہب، فلسفہ، عمرانیات، قانون اور بین الاقوامی تعلقات پر الگ الگ سے شوز کر متعلقہ ماہرین کی رائے لیتے تھے۔ اب یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ سنو کیا کہہ رہا ہے کے مصداق ان تکلفات میں پڑا ہی نہیں جاتا کہ کن حضرات کے متعلقہ کون سا موضوع ہے۔ ایک گھنٹے کا شو ہی تو مکمل کرنا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر ہمارا میڈیا اپنی نوعیت کا عجیب انداز رکھتا ہو کہ جس میں حکومتی و حزب مخالف ترجمانوں سے پالیسیز کی بجائے تجزیہ نگاروں کا کام لیا جاتا ہو اور ماہرین کا بھی۔ جب یہ سب کچھ چل رہا ہے تو میرا دفاعی تجزیہ نگار بننے میں کون سا امر مانع ہے۔

میں ایک دفاعی تجزیہ نگار والی اہلیت کی کسوٹی پر بھی پورا اترتا ہوں۔ دفاع کے ساتھ ساتھ سیاست اور معیشت میں بھی عملی طور پر وسیع تجربہ رکھتا ہوں۔ تسلی کے لئے آپ کو اس کا مختصراً ڈیمو بھی دے دیتا ہوں۔ رحیم یار خان میں گٹر ابل رہا ہو یا شکار پور کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا ذکر ہو۔ نوشکی میں ایک بے روزگار کی خوکشی کا معاملہ ہو یا ٹانک میں کوئی جھونپڑی جلے ان سب کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے موجودہ سیاسی نظام۔

اس نظام کی خرابیوں کی وجہ سے سیاستدان عیاشی کر رہے ہیں اور عوام سخت مسائل میں گھرے ہیں۔ اسی سیاسی نظام کی بدولت جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار لوگ غریب عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ چنانچہ اگر کاغذی پرزے پہ بنے اس سیاسی نظام کو ختم نہیں کرسکتے تو کم از کم اصلاح کر کے صدارتی طرز تو متعارف کیا جاسکتا ہے۔ یہی حال معیشت کا ہے۔ کمال ہے سیاستدانوں کی کہ وہ ہر سال بجٹ لاتے ہیں، بحث کرتے ہیں، منظوری کروا کر پراجیکٹس میں کمیشن لیتے ہیں۔ اور خود ہی آڈٹ کروا کر کرپشن کے کیسز کا سامنا تک کرتے ہیں۔ ایسی معیشت کھوکھلی اور تباہ کن نہ ہوگی تو کیا ہوگی جس میں بجٹ کو مباحثے اور آڈٹ میں لاکر عوام کو خوفزدہ کرنے کے ساتھ ساتھ قومی رازوں کو بے وقعت کیا جاتا ہو۔ کام ہوتا نظر آنا چاہیے بس۔

ان مقامی مسائل کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات پر بھی دسترس رکھتا ہوں۔ پہلے ناصر بیگ چغتائی، شوکت پراچہ اور معید پیرزادہ جیسے اینکرز عالمی تبدیلیوں پر تجزیے کے لئے کراچی یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی اور لمز وغیرہ جیسے اداروں کے انٹرنیشنل ریلنشنز کے اساتذہ کو تکلیف دیتے تھے جن کی کتابی باتیں سن کر عوام کا وقت برباد ہوتا تھا۔ ہمارے دفاعی تجزیہ نگاروں نے یہ مشکل آسان کردی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات سے مراد بھارت، افغانستان، امریکہ اور چین ہیں نہ کہ یورپی یونین، وینیزوویلا، کوریا اور عرب اسرائیل میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں۔

دوسرا یہ جان لیجئیے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، افغانستان احسان فراموش، امریکہ موقع پرست اور چین گہرا دوست ہے۔ لہذا اگر بھارت دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بات کرے تو ضرور اس میں ہندو بنئے کی سازش ہوگی، افغانستان مہاجرین کے حوالے سے رعایت مانگے تو اس کا پیچھے سے وار کرنے کا ارادہ ہوگا، امریکہ کوئی پیکیج دینے کی آفر کرے تو ضرور ہم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہوگا اور اگر چین قرضوں کی شرائط سخت کرنے کا کہے تو لازمی طور پر اس میں ہماری بھلائی ہوگی۔ لہذا بھارت کو کس کے رکھو، افغانستان کو دبا کر، امریکہ سے بچ کر اور چین کے ساتھ بنا کر رکھو۔ اس فریم ورک میں رہ کر آپ کے لئے بین الاقوامی تعلقات کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔

ان مدلل اور دوٹوک انداز بیان پر آپ کو یقیناً احساس ہوگیا ہوگا کہ میں کیوں ایک دفاعی تجزیہ نگار بننا چاہتا ہوں۔ مجھے اس وطن کی فکر آپ سب سے زیادہ ہے اس لئے مجھے حق ہے بلکہ آپ کا فرض ہے کہ مجھ سے قیمتی آرا لے کر اپنے دل و دماغ منور کریں۔ کیونکہ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ پاکستان پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).