زلزلہ، مال پانی اور ادھوری خوشی


رورل ہیلتھ سینٹر کی دیواریں گرگئیں تھیں اور ان دیواروں کے ملبے پر چھت جیسے چھترادی گئی ہو۔ اسی رورل ہیلتھ سینٹر کے ساتھ ہم لوگوں نے خیمے لگا کر ڈسپنسری، چھوٹا سا وارڈ اورڈریسنگ روم بنالیا تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ جیسے ہی لاہور سے جنریٹر، مزید خیمے، تھیٹر کا سامان، آٹوکلیف پہنچے گا ویسے ہی ان خیموں میں ایک چھوٹا سا عملی قسم کا آپریشن تھیٹر بھی بن جائے گا تاکہ جان بچانے والے ایسے آپریشن ان مریضوں کے کیے جاسکیں جن میں آگے جانے کی سکت نہیں تھی۔ سامان لاہور سے نکل چکا تھا، ایک دو دن میں اس علاقے میں ایک کیمپ ہسپتال بن جانے کی اُمید تھی۔

زلزلہ جو تباہی کرگیا اس کا مداوا تو شاید کبھی بھی نہ ہوسکے مگر جس طرح سے وہ لوگوں نے زلزلہ زدگان کی مدد کی ہے اس کی بھی مثال شاید نہیں مل سکے گی۔ ہم لوگ کراچی سے خالی ہاتھ روانہ ہوئے تھے اور یہاں آنے کے بعد موبائل فون پر ہی ضرورت کی ہر چیز کا انتظام ہوگیا تھا۔ لحاف، کمبل، غلہ، چائے، دودھ، دوائیں، تھیٹر کا سامان وارڈ کے بستر وغیرہ وغیرہ۔ لوگوں نے دل کھول کر مدد کی تھی۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ لوگ اتنے دیالو ہوں گے۔ بچے اپنا جیب خرچ، مزدور اپنی تنخواہیں عورتیں اپنے زیور اور بہت سارے مالدار لوگ اپنی دولت لوگوں سے شیئر کریں گے۔

زلزلے کے دوسرے دن سے ہی لوگ آنا شروع ہوگئے۔ زخمی لوگ، ہڈیاں ٹوٹی ہوئیں، ہاتھ پیر مجروح، کمر ٹوٹنے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور، بچے سہمے ہوئے، ڈرے ہوئے، بے چین، کسی ناگہانی آفت کے منتظر، آنکھوں میں تشویش اور چہروں پر خوف لئے ہوئے۔ عورتیں بین کرتی ہوئی، اُن عزیز رشتہ داروں، بچوں، اپنے شوہروں، بھائی بہنوں کو یاد کرتی ہوئی جو کھوگئے، مرگئے یا لاپتہ تھے۔

ایسی تباہی ایسی بربادی نہ میں نے دیکھی اور نہ ہی کبھی سنی تھی۔ افراتفری کا عالم تھا۔ اسکول ہسپتال اور گورنمنٹ کی دوسری عمارتیں تو جیسے چکنا چور ہوگئی تھیں۔ حکومت کے ہیلتھ سینٹر تو پہلے بھی کام نہیں کرتے تھے اور زلزلے کے فوراً بعد ان میں جان پڑنے کی امید کیسے کی جاسکتی تھی۔ اتنے اچھے لوگ اتنی خراب حکومتیں۔ اوپر والے نے نہ جانے کیسا نظام بنایا تھا۔ نہ جانے کس جرم کی سزا دی تھی کہ لوگوں کو ایسے رہبر رہنما ملے تھے جن کا مقصد صرف لوٹ مار تھا۔ غریب کی قسمت کبھی بھی نہیں بدلے گی۔ غریب کو ہی مختلف طریقوں سے مختلف جتن کرکے بار بار لوٹا جائے گا۔ یہی دھرتی کا اصول ہے جو اٹل ہے نہ بدلنے والا۔ کاش میں اپنی سوچ پر پابندی لگاسکتا۔

یہ ضرور ہوا تھا کہ یونی سیف، ڈبلیو ایچ او اور اقوام متحدہ کے دوسرے اداروں کی مہربانی کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں نے پہلی دفعہ ڈاکٹر، نرس اورخاص طور پر لیڈی ڈاکٹروں کی شکل دیکھی تھی۔ شاید پہلی دفعہ انہیں پتہ لگا کہ لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں، عورتیں بھی ڈاکٹر بن سکتی ہیں اوربیماریوں کا علاج بھی ہوسکتا ہے۔ لوگوں کو دوا مل سکتی ہے وہ صحتمند بھی ہوسکتے ہیں۔

یہاں کے لوگوں کے لئے چھوٹی موٹی بیماریاں بیماریاں نہیں تھیں۔ نزلہ، زکام، کھانسی، بخار، ملیریا، سر کا درد، کمر کا درد تو روزمرہ کی چیزیں تھیں، ان کا علاج نہیں ہوسکتا بلکہ شاید ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی نے لونگ والی چائے پی لی، کسی نے دودھ اور شہد کھالیا اور کسی نے دارچینی پیس کر شہد کے ساتھ پھانک لی۔ انڈا آدھا اُبال کھالیا تو نزلے کا علاج ہوگیا، کچھ سوکھی جڑی بوٹی ملا کر کھولتے ہوئے گرم پانی میں ڈبو کر پی لی تو کمر کا درد صحیح ہوگیا۔

سادے غریب بھولے بھالے لوگ ہزار ہا سال سے اسی قسم کے علاجوں سے صحیح ہوتے چلے آرہے تھے۔ کچھ زیادہ ہی طبیعت خراب ہوگئی تو مولوی صاحب نے پھونک کر پانی دے دیا۔ اللہ کے کلام میں بڑی برکت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ برکت تھی۔ عام طور پر ہونے والی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج ہوبھی جاتا تھا۔ مریض بھلا چنگا گھر میں ہی ہوجاتا تھا۔ ان لوگوں کو پتہ تھا کہ دنیا بہت آگے جاچکی ہے۔ اندھا پن، مختلف قسم کے کینسر، دل کی بیماریاں، گردے کے مسائل، جگر کا ختم ہوجانا اور بانجھ پن۔ ان سب کے لئے علاج موجود ہے۔ دل، گردہ، جگر بدل دیا جاتا ہے، ٹیسٹ ٹیوب میں بچے بنتے ہیں اور کینسر کا بھی علاج ہوسکتا ہے۔ ان کی قسمت میں بنفشہ تھا یا کسی جعلی اتائی کی دوا۔

یہاں بیماری کا مطلب تھا کہ شہر جانا۔ رورل ہیلتھ سینٹر کی عمارت تھی، ڈاکٹر اور نرسوں کے لئے بنے ہوئے کمرے تھے، ڈسپنسری کی جگہ تھی، آیا چوکیدار کا ٹھکانہ تھا مگر ڈاکٹر اور نرس دونوں میں سے کوئی نہیں تھا۔ ایک ڈسپنسر ہی سب کچھ تھا یہاں کا۔ جو ہر طرح کی بیماریوں کا علاج دو چار قسم کی گولیوں سے کرتا تھا۔ جن بیماریوں کا علاج رورل ہیلتھ سینٹر میں نہیں ہوتا انہیں شہر جانا پڑتا اور شہر جانے کا مطلب تھا کہ مرض لاعلاج ہے۔

ایسا کم ہی ہوا کہ مریض شہر سے زندہ بچ کر آئے ہوں۔ بیماریاں تھی بھی اتنی خراب، کسی کا اپنڈکس پھٹ گیا اور زہر جسم میں پھیل گیا، کسی حاملہ عورت کا بلڈ پریشر اتنا بڑھا کہ دماغ میں خون کی نالی پھٹ گئی اور عورت ہوش میں ہی نہیں آسکی۔ گردوں کے پتھر اتنے بڑے ہوگئے کہ گردے ہی نکالنے پڑے، جس کے بعد مشین سے خون کی صفائی ہوتی رہی مگر علاج پھر بھی نہیں ہوسکا اور مریض کی جان چلی گئی۔

مجھے لوگوں نے بتایا تھا کہ رورل ہیلتھ سینٹر کے کمروں میں کئی ڈبوں میں سامان بند تھا اور کہا جاتا تھا کہ جب بھی نیا ڈاکٹر آئے گا ان ڈبوں کا سامان کھولا جائے گا تاکہ مریضوں کے کام آسکے۔ ہر تھوڑے دنوں میں یہ ناٹک ہوتا تھا۔ کبھی صدر صاحب کے دورے کے موقع پر، کبھی وزیراعظم کے دورے کے دوران۔ وزیراعلیٰ بھی الیکشن سے پہلے وعدہ کرجاتے کہ اس رورل ہیلتھ سینٹر کو مثالی بنادیا جائے گا۔ یہاں پر عام بیماریوں کا علاج ہوگا۔

یہاں پر لیڈی ڈاکٹر بچوں کی ولادت اورآپریشن کے لئے موجود ہو گی۔ بے ہوشی کے ڈاکٹر اور سرجن کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ ایک ایسا مثالی سینٹر ہوگا جہاں سے حاملہ عورتوں کو کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہیں پر سب مشکلات سے نمٹ لیا جائے گا۔ انہوں نے ڈی جی ہیلتھ کو موقع پر ہی حکم دیا کہ فوری کارروائی کرکے اس سینٹر کو مثالی ہیلتھ سینٹر بنادیا جائے۔

ڈی جی ہیلتھ نے رورل ہیلتھ سینٹر کا بورڈ ہٹا کر مثالی ہیلتھ سینٹر کا بورڈ لگادیا بالکل ایسے جیسے ملک میں میڈیکل کالجوں کا بورڈ نکال کر میڈیکل یونیورسٹی کا بورڈ اور قانونی کالجوں، انجینئرنگ کالجوں کا بورڈ نکال کر لاء یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی کے بورڈ لگادیئے گئے تھے۔ اگر بورڈ لگانے سے چیزیں بدل جاتیں، رورل سینٹر ہیلتھ سینٹر بن جاتے، میڈیکل کالجوں میں تعلیم اور تربیت کا نظام موثر طریقے سے کام کرنے لگتا تو شاید چین جاپان یورپ امریکہ والے بھی یہی کرتے۔

انہیں اس طریقے کی خبر ہی نہیں تھی، انہوں نے سینٹروں کے نام نہیں بدلے، اندر کا نظام بدل دیا تھا۔ وہاں اسکول کا مطلب اسکول تھا، جہاں استاد پڑھاتے تھے، یونیورسٹی کا مطلب یونیورسٹی تھی جہاں علم و دانش محسوس ہوتا ہے اور دیہات سے لے کر شہروں تک پھیلے ہوئے ہسپتالوں میں انسان مجروح نہیں کیے جاتے ہیں۔ ان کی عزت کی جاتی ہے انہیں انسان سمجھا جاتا ہے، ان کا علاج ہوتا ہے، چاہے وہ عورت ہو کہ مرد۔ عزت و وقار کے ساتھ۔

مثالی ہیلتھ سینٹر نام بدلنے کے باوجود مثالی نہیں بن سکا۔ وزیراعلیٰ صاحب کے موقع پر حکم دینے کے باوجود کوئی بھی ڈاکٹر نرس مڈوائف اس سینٹر پر کام کرنے کے لئے نہیں آیا۔

جب شاہراہ قراقرم بنانے کے لئے لوگوں کا آنا جانا شروع ہوا تو ایک ایسے ہی موقع پر وزیراعظم کے دورے کے دوران پر مثالی ہیلتھ سینٹر میں بھی سب کچھ آگیا تھا۔ ڈاکٹر، لیڈی ڈاکٹر، دوائیں یہاں تک کہ الٹرا ساؤنڈ کی مشینیں بھی موجود تھیں۔ شاہراہ قراقرم سے واپسی پر وزیراعظم نے مثالی ہیلتھ سینٹر کا دورہ کیا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس مثالی سینٹر میں ضرورت کی تمام چیزیں موجود ہیں۔ انہوں نے صوبے کے وزیراعلیٰ پر اعتماد کا اظہار کیا۔

وزیراعلیٰ نے ڈی جی ہیلتھ کی تعریف کی، ڈی جی ہیلتھ نے ڈی ایچ او کا شکریہ ادا کیا اور ڈی ایچ او نے چیف ہیلتھ افسر اورمقامی کمیونٹی کو سراہا جس کی وجہ سے مثالی ہیلتھ سینٹر مثالی بن گیا تھا۔ وزیراعظم کے دورے کے بعد جو سامان جہاں سے آیا تھا وہاں ہی واپس پہنچادیا گیا مگر مثالی ہیلتھ سینٹر کا بورڈ نہیں ہٹایا گیا تھا۔

چیف ہیلتھ افسر کی نئی پوسٹ تھی جو موجودہ چیف ہیلتھ افسر کے لئے خصوصی طور پر تخلیق کی گئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ چیف ہیلتھ افسر صاحب جب ریٹائر ہوئے تو وہ محکمہ صحت میں ڈپٹی سیکریٹری ہیلتھ کے عہدے پر فائز تھے۔ ڈاکٹر بننے کے بعد انہوں نے صحت کے محکمے میں ہر عہدے پر کام کیا، انہیں پہلی دفعہ ایک بیسک ہیلتھ یونٹ میں تقرری دی گئی اور کام وہ پشاور کے سرکاری ہسپتال میں کرتے رہے تھے۔ جب کہ تنخواہ انہیں بیسک ہیلتھ یونٹ سے ہی ملتی تھی۔

وہ بیسک ہیلتھ یونٹ نہیں گئے کیونکہ بیسک ہیلتھ یونٹ میں نہ کوئی سہولت تھی اور نہ ہی کوئی اور اسٹاف۔ محکمہ صحت میں کام کرتے کرتے ان کی ترقی بھی ہوتی رہی، انہیں ایک رورل ہیلتھ سینٹر کا انچارج بنا کر کوہستان کے علاقے میں پوسٹ کردیا گیا لیکن کام کے لئے انہیں پشاور کے پولیس ہسپتال میں رکھ دیا گیا تھا۔ پولیس ہسپتال تھوڑے دن کام کرنے کے بعد وہ میڈیکولیگل افسر بن گئے۔

کہتے ہیں میڈیکولیگل افسر کے طور پر کام کرتے کرتے انہوں نے کافی دولت کمائی۔ پشاور کے فیشن ایبل علاقے میں بنگلے بنائے، دکانیں خریدیں اور بینک بیلنس میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا۔ میڈیکولیگل افسر کے عہدے سے فارغ ہوکر وہ فیملی پلاننگ کے ڈائریکٹر ہوگئے۔ فیملی پلاننگ کے پروگرام کے تحت انہوں نے نئی عمارتیں بنوائی تھیں۔ ہیلتھ سینٹروں میں فیملی پلاننگ کے دفتروں کی تعمیر کروائی۔ بہت ساری بلڈنگیں اور عمارتیں بنوانے میں انہوں نے خود بھی کافی کچھ بنایا تھا۔ اپنے جیسے لوگوں کو نوکریاں دلوائی تھیں، تعلقات بنائے تھے اور جب انہیں فیملی ہیلتھ پروجیکٹ کا ڈائریکٹر بنایا گیا تو وہ مزید دو شادیاں بھی کرچکے تھے۔

فیملی ہیلتھ پروجیکٹ میں بہت پیسے تھے کیونکہ اس میں خریداری بھی تھی اور ساتھ ہی سرکار کے صحت کے محکمے میں ٹوٹی پھوٹی ہوئی عمارتوں کی بھی مرمت کرانی تھی انہیں اچھا بنانا تھا۔ اس دفعہ تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔ انہوں نے بہت ساری بلڈنگوں کی مرمت کروائی، مرمت اور تعمیر کے کام میں حساب بڑا سیدھا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو مارکیٹ کے ریٹ سے دوگنا ڈھائی گنا پر ٹھیکہ دیا جاتا ہے، پھر دیے گئے ٹھیکے کے مطابق تعمیر بھی نہیں کرائی جاتی ہے۔

بچت اور بچت میں حصہ داری کے طفیل بڑی آمدنی ہوتی تھی۔ ساتھ ہی جو خریداری کی گئی وہ لاکھوں کروڑوں میں تھی۔ الٹراساؤنڈ کی مشین، ڈینٹل کلینک کا سارا سامان، لیبر روم کے لئے قیمتی آلات، لیبارٹری کے اوزار وغیرہ وغیرہ اس ڈائریکٹری میں بھی منافع خوب ہوا۔ بے کارکی عمارتیں بنائی گئیں، بے شمار غیر ضروری آلات اور اوزار خریدے گئے لیکن ہوا یہ کہ حکومت بدل گئی۔ نئی حکومت نے نیا پروجیکٹ ڈائریکٹر بنایا کیونکہ نئی حکومت میں نئے لوگوں کو روپوں پیسوں کی ضرورت تھی، انہیں محکمہ صحت بلالیا گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2