حکومتی توجہ کی منتظر عظیم درسگاہیں


سابقہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں پرائیویٹ اسکولوں کے متعلق کیسوں کی گونج ہر خبرنامے میں سنائی دینے لگی۔ میاں ثاقب نثار نے بڑے پرائیویٹ اسکولوں کو لگام دینے کی کوشش کی۔ شہر قائد میں کئی ایسے اسکول موجود ہیں جن کی ماہانہ فیس پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔ ماہانہ فیس کے علاوہ لیبارٹری چارجز، سالانہ فیس، امتحانی فیس، کھیلوں کی فیس وغیرہ کی مد میں بھی بھاری رقم وصول کی جاتی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی اس دلیری میں حکومت اور عوام کا برابر کا حصہ ہے۔ درختوں کے نیچے پھٹی چٹائی پر پڑھنے والوں کی آج خواہش کے کہ ان کا بچہ اس اسکول میں پڑھے جس کی عمارت تاج محل کی طرزپر بنی ہوئی ہو۔ یہ چاہتے ہیں بچہ اس اسکول میں تعلیم حاصل کرے جہاں وہ منہ مروڑ کر انگریزی بول سکے اور اردو بولنے والوں کو خبطی سمجھے۔ پھر اس طرح کی خواہشوں کی تکمیل میں ایسا تو ہوتا ہے۔

دوسری جانب حکومت کی بات کی جائے تو 07 سالوں میں شعبہ تعلیم میں حکومتوں نے کہاں کہاں اپنے جھنڈے گاڑے اس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی اعلانات کی حد تک تو وزیراعظم اور گورنر ہاؤسز میں جامعات قائم کردیں لیکن ان اعلانات کی تکمیل تاحال ایک خواب ہی ہے۔ اگر کہیں سرکاری اسکول کالج موجود ہیں بھی تو ان کا حال یہ ہے کہ کہیں استاد نہیں تو کہیں طالب علم نہیں اور جہاں دونوں ہیں وہاں پڑھانے کی جگہ نہیں کیوں کہ اسکول کالج کے لئے مختص جگہوں پر با اثر افراد کے مویشی بندھے ہوتے ہیں۔

گویا شہر قائد سمیت ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی تین اقسام شہرت کی حامل ہیں۔ ایک وہ جن کی بڑی بڑی عمارتیں اور بڑی بڑی فیسیں ہیں۔ دوسری قسم درمیانی درجے کے پرائیویٹ اسکول کالجوں کی ہے جن کی فیس کچھ مناسب ہوتی اور تیسری قسم پیلے اسکولوں یعنی سرکاری اسکولوں کی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دوست نے ایک تعلیمی ادارے کی تقریب تقسیم اسناد میں مدعو کیا۔ اس تعلیمی ادارے کا تعلق نہ تو تاج محل جیسی عمارتوں والی قسم سے تھا نہ ہی یہ درمیانے درجے کا اسکول تھا نہ ہی اس تعلیمی ادارے کو کوئی سرکاری یا بیرونی فنڈنگ ملتی تھی۔

کراچی کے علاقے گلشن حدید میں قائم جامعہ باب الرحمت ایک ایسا مدرسہ ہے جہاں ملک بھر سے طالب علم تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ سفید لباس میں موجود طالب علم ایک مثالی نظم وضبط کے ساتھ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کہیں کوئی شور نہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس ادارو میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ تقریب تقسیم انعامات میں 80 طالب علم ایسے تھے جنہوں نے قرآن پڑھنا سیکھا۔ اور کئی طالب علم ایسے تھے جنہوں نے اس کلام پاک کو اپنے دلوں میں محفوظ بھی کیا۔

اس ادارے کی تقریب میں آنے والے شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو ادارے کے طالب علموں کو نظم و ضبط اور اخلاق سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ساتھ ہی ایک صاحب بیٹھے تھے ان سے بات چیت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ادارے کے استاد ہیں۔ ان صاحب سے بات کرنے پر علم ہوا کہ ادارے کی کوئی بھاری فیس نہیں ہے۔ یہاں پڑھنے والے اکثر طالب علموں کو مہمان طالب علم کہا جاتا کیوں کہ وہ دوسرے شہروں سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ ان طالب علموں سے بھی کسی قسم کی فیس نہیں لی جاتی بلکہ ادارہ ان کے رہن سہن کا اور کھانے پینے کا انتظام بھی کرتا ہے۔ اس سلسلے میں مخیر حضرات ادارے کی مدد کرتے ہیں اور ان کی مدد اور اللہ کی نصرت سے یہ ادارے چلتے ہیں۔

جامعہ باب الرحمت توشہر کراچی کا ایک ادارے ہے۔ کراچی بھر میں ایسے مدارس کی بڑی تعداد موجود ہے جو طالب علموں کے رہن سہن کے ساتھ کھانے پینے اور کپڑوں کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ ان اداروں میں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم پر بھی خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس بات کا علم دو موقعوں پر بخوبی ہوا۔ پہلی بار جب خاکسار کواردو صحافت کے ایک عظیم نام انور غازی صاحب سے ملنے کا اشتیاق ہوا تو ان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جامعۃالرشید میں پڑھاتے ہیں وہاں ان سے ملا جاسکتا ہے۔

نام سے ہی ظاہر ہوا کہ یہ کوئی مدرسہ ہے، حضرت چہرے سے لگتے بھی مولوی ہی تھے، خیر میں ان کے بتائے پتہ پر پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ مدرسہ تو ایک الگ ہی دنیا ہے، مدرسے کے ساتھ ہی اسکول موجود ہے جہاں طالب علموں کو دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسہ کی کنٹین تؤدیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہوئیں جب جامعہ کراچی میں پڑھا کرتے تھے تو اسی طرز کی کنٹین وہاں بھی ہوا کرتے تھی۔ ملاقات کے بعد جب مدرسے کا دورہ کیا اور طالب علموں سے ملاقات ہوئی تو حیرانگی ہوئی کیوں کہ اس یونیورسٹی نما مدرسے کے طالب کسی بھی طرح بڑے اسکولوں کے طالب علموں سے کم نہ تھے۔

دوسرا اتفاق تب ہوا جب علامہ اقبال کے متعلق ایک پروگرام میں بحیثیت منصف جانے کا اتفاق ہوا۔ پروگرام میں شرکت کرنے والے طالب علموں میں سے چند طالب علم ایسے تھے جو علیحدہ نظر آرہے تھے۔ سفید لباس پر پگڑی پہنے یہ طالب علم فر فر انگریزی بول رہے تھے۔ انگریزی بولنے والے ان طالب علموں نے جب اسٹیج پر اردو کے جوہر دکھائے تو میرے لئے نتائج ترتیب دینا نہایت آسان ہوگیا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ بھی ایک مدرسے بیت السلام کے طالب علم ہیں۔

مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے ان طالب علموں کے ذہنوں پرکچھ سوال ضرور نقش ہوں گے اور وہ یہ کہ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ان طالب علموں کو ملازمتوں میں حصہ دے؟ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ ان میں سے بھی قابل طالب علموں کی قومی سطح پر پذیرائی کی جائے اور انہیں انعامات سے نوازا جائے؟ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ مدارس کے طالب علموں کے لئے بھی کوئی یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام لایا جائے۔ کیا یہ طالب علم ہمیشہ مخیر حضرات کے دیے پیسے سے ہی سہولیات حاصل کریں گے؟ کیا حکومت ان کے لئے کوئی پیکج نہیں لائے گی؟ دنیا بھر میں دین و وطن کا نام روشن کرنے والے یہ بچے حکومتی توجہ کے حقدار نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).