بھٹو ہر روز پیدا نہیں ہوتے


فروری 1974 دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور اور پنجاب اسمبلی ہال کا انتخاب کیا گیا۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی دنیا کے پچاس سربراہوں کو دعوت دی، مہمانوں کے قیام کیلئے شہر کی خوبصورت پرائیویٹ کوٹھیوں کی تلاش شروع ہوئی۔ ہر کوٹھی کا مالک خوشی کے ساتھ کسی مسلمان سربراہ کے لئے اپنا گھر دینا پسند کررہا تھا۔ جس کی کوٹھی اس لسٹ میں آگئی اس نے بڑا فخر محسوس کیا کہ میرے گھر میں فلاں ملک کا سربراہ قیام پذیر ہوگا۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل کے لئے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس جائے قیام طے پایا۔ ہر مہمان کا استقبال صدر فضل الہی نے ائیرپورٹ جاکر کیا۔ ہر مہمان کے لئے کار مختص۔ آگے پیچھے موٹرسائیکل سوار راستے طے شدہ ایئرپورٹ سے مہمان خانہ، اسمبلی ہال کے راستے طے شدہ واپڈا ہاؤس، اسمبلی ہال، الفلاح بلڈنگ، شاہ دین بلڈنگ اور قرب وجوار کی دیگر بلڈنگوں پر زبردست حفاظتی انتظامات سیکیورٹی گارڈز متعین تھے۔ اسمبلی ہال کے پیچھے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کا مکمل انتظام کیا گیا تھا، اسمبلی ہال کی تزین وآرائش میں تمام نیا فرنیچر شامل تھا۔ جسے میکلوڈروڈ کے امیر برادرز نے خصوصی طور پر تیار کیا تھا۔ قالینوں کے سوداگروں نے اپنے تمام قیمتی قالین اسمبلی ہال، شاہی قلعہ اور شالیمار باغ میں بچھانے کے لئے بڑی عقیدت سے دیئے۔

پروگرام کے مطابق معزز سربراہان نے نماز جمعہ کے لئے شاہی مسجد رات کے کھانے کے لئے شاہی قلعہ اتوار 24 فروری کو شام کی چائے کے لئے شالامار باغ جانا تھا۔ دیگر مقامات کی طرح اس تاریخی باغ میں آمد پر سکول کے بچوں نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہنا تھا، میں اور میرے کلاس فیلوز بھی ان بچوں میں شامل تھے جنہوں نے علاقائی لباس پہن رکھے تھے۔

میرے لیے پہلا موقع تھا کہ نہ صرف اپنے ملک کے عوامی وزیراعظم بلکہ اسلامی دنیا کی دیگر شخصیات کو قریب سے دیکھا، بھٹو صاحب بڑے باوقار انداز سے نمودار ہوئے ان کے ہمراہ سعودی فرمانرواشاہ فیصل، لیبیا کے کرنل معمر قذافی، مصر کے انورسادات، سوڈان کے عیدی امین اور کئی قدآورہستیاں، جنہیں ایک ساتھ اتنے پاس دیکھنا شاید ایک خواب لگتا تھا اور اب بھی ایسی ہی کیفیت ہو۔

ان سب لیڈروں نے پرتپاک استقبال کا بھرپوراور پرجوش انداز سے جواب دیا۔ قائدین کے چہروں سے نمایاں تھا کہ وہ پاکستان آ کر اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں ایک نئی قوت بننے کے جس عزم کا اظہار کررہے ہیں وہ آنے والے دنوں میں نہ صرف مسلم امہ کے لیے تقویت کا باعث بنے گا بلکہ بڑی عالمی طاقتوں کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہوگا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کی شخصیت بلاشبہ کرشمہ ساز حیثیت رکھتی تھی جس میں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی صلاحیت، حالات کا تجزیہ کرنے اور آنے والے وقت کی پیش بندی کی اہلیت بھی تھی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ایک بڑی کامیابی تھی۔ اسلامی دنیا نے بھٹو کی سوچ اور فکر کا اعتراف کرلیا تھا خصوصاً عرب ممالک کی قیادت بہت زیادہ اعتماد کرنے لگی۔

اس صورتحال کو امریکہ اور دیگر یورپی طاقتیں جنہوں نے پہلے بھٹو کو قبول کرلیا تھا مگر اس نئے اتحاد کی تشکیل کے بعد کچھ خائف ہوگئے تھے یہ سب اس کو مات دینے کی ترکیبیں بنانے لگے۔ بھٹو اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے انہوں نے کھلے الفاظ میں ان طاقتوں کو للکارا بھی۔ یہ للکار ایسے ہی نہیں ہوتی، اس کے پیچھے انسان کو کوئی قوت اور طاقت حاصل ہوتی ہے جو اس کا اعتماد بڑھارہی ہوتی ہے۔ اسے ہلہ شیری دیتی ہے کہ تم کھڑے رہو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔

مجھے 1975 میں ایک بار پھر بھٹو صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، منٹو پارک ہیلی کاپٹر پر اترے۔ دو بچوں نے گلدستے پیش کرکے ان کا استقبال کیا، ان میں ایک میرے بڑے بھائی تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں پیار کیا اور تھپکی دیتے ہوئے کہا تم قوم کا روشن مستقبل ہو، ہمیں تم سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، اپنی تعلیم اچھے سے مکمل کرو۔

بھٹو صاحب نے خطاب میں کہا اس نئے پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں اندرونی اور بیرونی دونوں ہیں۔ ہم نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے اور باہر کی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا بھی ہے۔

بھٹو کوئی لکھی تقریر نہیں کرتے تھے وہ ایک حقیقی سٹیٹس مین تھے جنہیں معلوم ہوتا تھا کہ کس موقعے پر انہوں نے کیا بات کرنی ہے انہیں جملے بنانے یا ادا کرنے سے پہلے سوچنا نہیں پڑتا تھا۔

وہ ایک مکمل سیاستدان تھے جس نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی بہت قریب سے دیکھا اور دوسری جانب عوام میں بالکل نچلی سطح تک جا کر بھی ان کے دکھ محسوس کئے۔ بھٹو کا عوامی انداز اگرچہ دنیا کے کئی لیڈروں میں بہت زیادہ پایا جاتا تھا مگر اسے مقبولیت ملی، ان کے منفرد طرز خطابت سے بھی۔ وہ بڑے غیر محسوس انداز سے لہجے میں جذبات شامل کرتے اور پھر اپنے عزم اور ارادے کا اظہار بھرپور طریقے سے کرتے، جسے سامعین بڑی توجہ سے سنتے۔

مخالفین نے بھی انہیں مجمع باز، مداری اور نہ جانے کس کس لقب سے نوازا، درحقیقت وہ بھٹو سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔

اور یہ خوف بیرونی دنیا کو بھی لاحق ہوتا جارہا تھا جب بھٹو نے ایٹم بم بنانے کاعزم ظاہر کیا۔ اسلامی دنیا کو اکٹھے کرنے کو پہلے ہی بڑی طاقتیں ہضم نہ کرپائی تھیں۔

بڑی طاقتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ۔ ان کا ایک ہی موقف رہا ہے۔ “ہم سے پوچھ کر چلو” یا “ہمیں کیوں نہیں بتایا” اس بیانیے سے اختلاف ایک بڑے تصادم اور محاذآرائی کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔

میں نے آخری بار کسی موقع پر بھٹو صاحب کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر اعتماد میں کمی تو نہیں تھی لیکن اب تفکرات کے اثرات بھی نمایاں تھے۔ امریکہ نے اپنا کھیل شروع کر دیا۔ اسلامی دنیا کو متحد ہونے کا خواب دکھانے والوں کو کمزور کرنے کے لیے سازشوں کے جال بننے لگے۔

ملک کے اندر دینی قوتیں ہی اس لیڈر کے خلاف صف آرا ہوگئیں، جو اسلامی دنیا کا لیڈر بن رہا تھا۔ ان قوتوں کی کمزوری اصل میں ان کا توکل تھا۔ وہ بھروسہ ہمیشہ بڑی طاقت پر کرتی ہیں۔ اللہ تعالی پر ایمان رکھنے والے کبھی مفادات کے دریا میں کشتی نہیں اتارتے۔

بڑی طاقتوں نے راستے کی رکاوٹ ہٹانے کے لیے کوئی بھی طریقہ استعمال کرنا تھا انہوں نے مہرہ بھی ایسے لوگوں کو بنایا، جو اسلام کے بڑے ٹھیکیدار تھے۔ تاکہ بھٹو کو بدنام کیا جاسکے۔ لیکن ان مہروں کو سوچنا چاہیے تھا کہ اسلامی دنیا کو متحد کرکے بھٹو نے کون سا سیاسی فائدہ اٹھانا تھا کیا وہ پاکستان میں اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا تھا اگر ایسا بھی تھا تو کیا بھٹو کسی دوسرے علاقے سے حملہ آور ہوکر یہاں آیا تھا۔ جس کی مخالفت تھی۔ وہ یہیں کا تھا، یہیں کا سوچتا تھا۔ وہ کرپٹ نہیں تھا۔

اگر کچھ قوتوں کو اس بات کی ناراضی یا دکھ ہے کہ “ہمیں کیوں نہیں بتایا” اور محض اس بنا پر اس کو راستے سے ہٹا دیا یہ ان قوتوں نے اس وقت بھی اچھا نہیں کیا۔ اور اگرآج بھی ان کی سوچ اور نظریہ یہی ہے تو پھر کسی بڑے نقصان کو مزید بھگتنے کے لیے تیار رہیں، کیونکہ قومی نقصانات کی سب سے زیادہ ذمہ دار بھی یہی قوتیں ہیں۔ سیاسی ازالے اتنی آسانی سے نہیں ہوپاتے، لیڈر کو عوام سے دور کرنے کا خمیازہ بھگتنا مشکل ہوجاتا ہے۔

وہ بھول رہی ہیں کہ بھٹو روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar