کھیر کا شوقین بادشاہ


گئے وقتوں کی ایک کہانی ملاحظہ ہو!

کہتے ہیں کہ ایک ملک کا بادشاہ چل بسا پھر کیا تھا بس بادشاہی کے لئے پورے ملک میں تماشا لگ گیا۔ عنان حکمرانی ہاتھ میں لینے کے بہت سے آرزومند قصر بادشاہی میں قدم رنجہ فرمانے کے لئے تگ ودو میں لگ گئے۔ اس تماشے نے جب لڑائی کا روپ دھار لیا تو و وہاں موجود اکابرین نے صلاح مشورے سے ایک سادہ سا حل نکالا جو یہ تھا کہ جو بھی کل صبح سویرے دارا الحکومت میں داخل ہوگا وہی ہمارا نیا بادشاہ ہوگا۔

اگلے دن صبح سویرے اتفاقاً ایک فقیر لمبا چُغہ پہنے، ہاتھ میں کشکول تھامے اور بھیک کی صدائیں لگاتا شہر میں داخل ہوا۔ مکین سلطنت نے جب یہ صورتحال دیکھی تو حیران رہ گئے کیوں کہ سب سے پہلے فقیر ہی دارالحکومت میں داخل ہوا تھا اور اُصولاً فقیر ہی اب ان کا بادشاہ تھا۔ پریشان تو سب ہوئے لیکن مرتے کیا نہ کرتے فقیر ہی کو بادشاہ بنالیا۔ فقیر کی یُوں اچانک جب کایا پلٹ گئی تو وہ خوشی سے پُھولے نہیں سمایا اورانتہائی شان سے تخت پر براجمان ہوگیا۔

سب سے پہلے حکم جو اس نے دربار میں جاری کیا وہ کھیر کا تھا۔ اس نے حکم دیا میرے لئے کھیربنائی جائے۔ نئے بادشاہ کے لئے شاہی کھیر بنادی گئی۔ عجیب و غریب انداز اپناتے ہوئے اور عظمت اوروقار کا دکھاوا کرکے فقیر نے کھیر کھائی۔ اب کیا تھا بس ”فقیر بادشاہ“ اور شاہی کھیر۔

پڑوس کے ممالک میں جب یہ عجیب و غریب خبر پہنچ گئی کہ ان کے پڑوسی ملک میں ایک ناتجربہ کار اور سفارتی امُورسے بے خبر آدمی جو پیشہ ور بھکاری ہے کو بادشاہ نامزد کیا گیا ہے تو انہوں نے موقع کو غنیمت جان کر لشکر کشی کا پکّا ارادہ کرلیا۔ دشمن ممالک اپنی فوجیں سرحدوں پر لے آئیں۔ سرحدوں پر تناؤ دیکھ کر ذی شعور مشیروں کا ٹولہ بادشاہ سلامت سے ملا اور ملک کی گھمبیر صورتحال سے اس کو آگاہ کیا لیکن بادشاہ نے عجیب و غریب بات کہی۔ ”آپ لوگ فکر نہ کریں کچھ بھی نہیں ہوگا میں سب سنبھال لوں گا آپ لوگ بس کھیر بناتے رہیئے“۔

دشمنوں کی پوری فوج سرحد پر موجود حملے کے لئے صفیں باندھ رہی تھیں اور بادشاہ دنیا جہاں کے ہر غم سے بے خبر کھیر بنانے کا حکم دے کر کھیر چاٹتا رہا۔

ملک ٹوٹتا رہا، عوام کی بے چینی اور خوف و ہراس بڑھتا رہا، اندرونی چور شاطر دماغی سے اپنا کام کرتے رہے، فوج میں بے یقینی کے اثرات اور خود اعتمادی کا فقدان سرائیت کرتا رہا لیکن ایک ملک کا بادشاہ تھا جو اطمینان سے کھیر کھاتا رہا۔

آخر کار دشمنوں نے لشکر کشی کر ہی دی اور جب ان کی فوجیں پورے ملک کو روند کر بادشاہ کے محل کے دیواروں پر دستک دینے لگی تو بادشاہ اُس وقت بھی کھیرکھانے میں مصروف رہا۔ بادشاہ کے محل کو جب گرا کر فتح کیا گیا تو بدحواس لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے۔ بادشاہ نے حیرانی سے پوچھا

” کیا مسئلہ ہے آپ لوگ میرے گرد کیوں جمع ہورہے ہیں“؟ لوگوں نے اس سے کہا ”آپ ہی ہمارا آخری سہارا اور آخری امید ہیں“۔ بادشاہ نے کن آنکھیوں سے ان کو دیکھا، اپنی چادر اپنے گرد لپیٹی اور وہاں سے جاتے ہوئے کہنے لگا ”آپ لوگ مجھ پر اتنی بڑی ذمہ داری کیوں ڈال رہے ہیں میں تو صرف کھیر کھانے آیا تھا“۔

ملک لٹ گیا، عوام یا تو مارے گئے اور یا دربہ در ہوئے اور فقیر جو صرف کھیر کھانے آیا تھا ڈھیر ساری کھیر کھا کر واپس اپنی راہ چل پڑا۔

یہ کہانی حقیقیت ہے یا فرضی لیکن کھیر، فقیر اور بادشاہی کے اس کہانی کے کرداروں میں کہیں نہ کہیں ہمارے ملک پاکستان کے سیاستدان اور عوام نظر آرہے ہیں۔ ہم بھی یہی دیکھ رہے ہیں سالوں سے کہ ہمارے فیصلہ سازوں اور اکابرین نے پکا تہیہ کرلیا ہے کہ تخت  پرکھیر کھانے والے فقیروں ہی کا ہُما پرواز کرے گا۔ جس ملک کو آزاد ہوئے سات عشرے گزر چکے ہیں وہاں عام آدمی کی زندگی اگر دن بہ دن مشکل ہوتی جارہی ہے تو حقیقیت یہی ہے کہ جو صرف کھیر کھانے آئے ہیں کھیر ہی پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں اور جو یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کھیر کھانے والا کسی دن ان کے لئے بھی کچھ چھوڑے گا غلط فہمی میں ہیں۔

ہمارے ملک میں بھی آزادی سے لے کر آج تک اٹھارہ وزرائے اعظم جمہوری طریقے سے آئے اور سات عبوری حکومتوں کا حصّہ رہے لیکن ان کی وجہ سے کبھی بھی عام آدمی کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آیا۔ لاؤڈ سپیکروں پر بلند وبانگ دعوؤں سے ان کی سیاست شروع ہوجاتی ہے اور پھر دوسروں پر اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈالنے پر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ جب بھی آتے رہے ان کے ہاتھوں میں ملک اور عوام کی تقدیر بدلنے کا وژن رہا لیکن قصر بادشاہی میں اچانک یہ سب کچھ بھلا بھیٹتے اور پھر کوئی اور آجاتا اور اسی طرح یہی کھیل پچھلے ستر سالوں سے چل رہا ہے۔

اس پورے کھیل میں جو بنیادی کردار رہا ہے وہ ہمارا اپنا یعنی عوام ہی کا رہا ہے۔ ہم نے آج تک کبھی بھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ہماری زندگی کا اپنا معیار کہاں ہے اور یہ جن کو ہم ہمیشہ سروں پر بٹھاتے ہیں ان کی زندگی کن سہولتوں میں گزر رہی ہے۔ ۔ عام آدمی کیوں یہ نہیں سمجھ سکا آج تک کہ اُس کا اس کھیل میں فائدے کا کوئی چانس نہیں۔ ہم اگر اس تذبذب سے نکنا چاہتے ہیں تو لازمی طور پر کھیر کے شوقین لوگوں کو تخت سے دور رکھنا ہوگا۔ ہم اگر یہ نہ کرسکے تو پھر کھیر کا حساب کرنا ہوگا اور یہی تاریخ کا سبق ہے کہ جن قوموں نے کھیر کا حساب کیا ہے ان کے لئے زندگی آسان بن گئی ہے۔

ہماری تاریخ میں تیرہ صدور آئے جن میں زیادہ تر بہت با اختیار تھے لیکن انہوں نے بھی کھیر کھانے ہی پراکتفا کیا اور بعض تو بزرگی کے لبادوں میں ملبوس اکثر بس کھیر کھاکر تماشا ہی دیکھتے رہے۔ مسائل کا ذکراگر کیا جائے تو جنگوں کے ساتھ ساتھ محلاتی سازشوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے موجود ہیں۔ ان سات عشروں میں کبھی بھی شاید ایسا دور نہیں آیا جس میں عام آدمی کی زندگی اور ”کھیر کے شوقینوں“ کی زندگی ایک جیسی بن گئی ہو۔

ہم نے سقوط ڈھاکہ دیکھا لیکن سبق حاصل نہیں کیا۔ ہم نے سپر پاؤرز کی بے وفائیاں دیکھ لی لیکن پھر بھی ہم باز نہیں آئے۔ ہم نے ہندوستان کی دشمنی اور ہٹ دھرمی ہزار دفعہ دیکھ لی لیکن ہم ایک نہیں بن سکے۔ ہم نے ایٹمی دھماکے کیے لیکن کبھی سجدہ شکر ادا نہیں کیا۔ ہم نے سی پیک شروع کیا لیکن کبھی اس کو ہضم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ کھیر کھانے والوں نے ہمیشہ اس میں بھی اپنے مفادات ڈھونڈنے کی کوشش کی۔

ہم نے کھیلوں کے میدان میں پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا لیکن ہماری دھاک تھوڑے ہی عرصے بعد ختم ہوئی کیونکہ ہم نے قافلے کا سالار چننے میں غلطی کی۔ ہم سالار قافلہ سے نیک نیتی کی وجہ سے توقعات رکھتے رہے لیکن وہ کھیر کھاتا رہا۔

ہم اگر یہ کہیں کہ آج تک ہم صرف کھیر کھانے والوں کو پروموٹ کرتے رہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہمیں اس ملک کے سیاستدانوں کو کھیر سے دور رکھنا ہوگا کیونکہ کھیر ان کے لئے ایک شغل ہے لیکن ہمارے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).