محبت کرنے والے بڑے حوصلوں کے مالک ہوتے ہیں


خوشیوں کی بھی کچھ راحت بھری تھکاوٹ ہوتی ہے۔ اور ان مسرت بھرے لمحات کے لیے اگر انسان ایک طویل عذاب سے گزرا ہو تو یہ تھکاوٹ اور بھی اہم اور یادگار ہو جاتی ہے۔

جب میں نے یونیورسٹی جوائن کی تو کچھ عجیب سے عزائم اور امیدیں دامن میں تھیں آگے بڑھنے کی خواہش کچھ شاندار کر دکھانے کا جذبہ اپنی خودی اور انا کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا۔

کچھ ماہ تو ماحول کو سمجھنے میں بیت گئے اور کچھ دل کو سمجھانے میں گزر گئے اب وہ تلخ و شیرں یادیں میں پوٹلی میں باندھے زندگی کے ایک اور اہم موڑ پر کھڑی تھی۔ جامعات کے مخلوط تعلیمی کلچر میں ہزاروں طبیعتوں اور مزاجوں کے لوگ ہوتے ہیں، سچے سُچے لُچے لفنگے قنوطی پبوسی۔

اور یہ سب ایک دوسرے کو تباہ کرنے یا نباہ کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ لیکن میں اپنی کچھ ترجیحات سیٹ کر کے وہاں پہنچی تھی اس حوالے سے جزوی کامیابی میرا نصیب بنی اپنی سٹڈی میں ٹاپ پہ رہی لیکن دل ہار بیٹھی۔

کامران یونیورسٹی میں میری ہی طرح کا خود پسند نوجوان تھا توہین کی حد تک جاکر لڑکیوں کے پروپوز کو ریجیکٹ کر دینے والا۔ اسی طرح میں بھی کئی مفت خوروں کو جھاڑ پلا چکی تھی ایک دن کامی بھی اس کی زد میں آگیا وہ مجھے کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کے لان میں ملا اور اپنا رعب جمانے لگ گیا۔ وہاں ایک اچھی خاصی جھڑپ ہو گی جو کئی دن تک یونیورسٹی میں دلچپ موضوع رہی لیکن یہ ہمارے نئے تعلق کی ابتدا بھی تھی۔ یہ بہانہ آہستہ آہستہ ہمارے تعلق کی بنیاد بن گیا۔

اور جب یہ تعلق بہت زیادہ نظر آنے لگا تو ایک دن میں نے کامی کو بتادیا اگر سنجیدہ ہو تو اپنی امی کو بھیجو ورنہ اس فضول ٹائم پاس کا کیا فائدہ وہ بھی سیرہس تھا۔ اگلے ہفتہ میں چند چھٹیاں تھیں میں گھر چلی آئی آتے ہی چھوٹی نینا نے بتایا، آپی آپ کے رشتے کے لیے کچھ لوگ آئے تھے میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا، کون تو پتہ چلا کامی نے اپنی امی کو بھیجا تھا بے قرار دھڑکنوں کے ساتھ میں امی ابو بہن بھائیوں اور کزنز سے ملی لیکن اس موضوع کو کسی نے نہ چھیڑا۔

چند دن بعد یونیورسٹی پہنچی کامی سے ملی وہ کچھ بجھا بجھا سا تھا پتہ چلا کہ اس کی امی کو میرے گھر والوں نے رشتہ کا انکار کردیا، وجہ روایتی سی کہ ان دو خاندانوں میں ماضی میں کہیں مقدمہ بازی رہ چکی تھی اور برادری و خاندانی عصیبت تھی جو اب بھی زندہ و متحرک تھی ان معاملات کی گرد ابھی ذہنوں پہ چھائی ہے پھر کیا تھا میں اور کامی جھوٹی اناؤں اور سٹیٹس کے ناپ تول کا شکار ہوتے رہے، دو تین چکر لگانے کے بعد کامی کے والدین نے بھی انکار کردیا انھوں نے بھی اپنی شدید توہین محسوس کی تھی، یونیورسٹی کا آخری سال تھا میں نے کامی کو ایک اور کوشش پر راضی کر لیا اس کی امی ایک بار پھر اولاد کی محبت میں یہ سزا سہنے کے لیے تیار ہو گی۔

ہم امتحانوں میں پھنس گئے کئی دن تو سر کھجانے کی فرصت نہ ملی، فارغ ہو کر گھر پہنچی تو سب کزنز اور چھوٹی بہن نے کھلے چہروں اور مبارکباد کے ساتھ استقبال کیا۔ پتہ چلا کہ اب کی بار بھی امی ابو انکاری تھے لیکن بڑے بھیا میدان میں آگئے اور ان کی کوشش سے رشتہ طے ہوگیا ایم اے کے رزلٹ سے پہلے ہی شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی۔

شادی کی روایات اور ہنگاموں سے گزر کر اب میں عجلہ عروسی میں تھی۔ کمال کی خوشی اور بلا کی تھکاوٹ کے ساتھ۔

لیکن خوشیوں کی عمر اس قدر ہوتی ہے اگلے چند لمحوں میں مجھے اندازہ ہوگیا کامی کی امی اور بہنوں کے رویوں کو میں اپنی اس خاص کیفیت میں پرکھ نہ سکی لیکن کامی کی کمرے میں آہٹ پر جونہی میں نے اس کے چہرے کی طرف نظر اٹھائی میرے روئیں روئیں میں خوف کی لہر دوڑ گئی وہ کھلتا چہرہ ان مسرت کے لمحوں میں اُلجھا اُلجھا اور بیزار سا لگا۔ بشریٰ نعمان تمھارے والدین نے ہمارے خاندان کی ناک کٹوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی یہ اللہ کا کرم تھا کہ ہم تجھے بیاہ لانے میں کامیاب ہوگئے اب تجھے ہماری روایات اور اصولوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔

لفظ ہتھوڑے کی طرح ذہن پہ برس رہے تھے زمین و آسمان گھومتے دکھائی دینے لگے۔ یقین نہیں آرہا تھا انسان ماضی کی تلخیوں کو یوں بھی گلے لگا سکتا ہے کامی کہیں باہر نکل گیا۔
میں کمرے کی خوفناک فضا میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وحشت و خوف کی حالت کی جانب بڑھ رہی تھی۔

ایسے لمحات میں انسان مرنے کی دعا کرتا ہے یا خود کشی کا فیصلہ۔ میں مستجاب الدعوات تو نہ تھی سو کمرے میں اپنے مطلب کی کوئی چیز ڈھونڈنے لگی۔ لیکن یہاں تو ہر طرف پھول ہی پھول تھے جو اب تعفن چھوڑ رہے تھے۔ ذہن ماوف سا ہو چلا تھا۔

سائیڈ ٹیبل پہ رکھی ایک ڈائری کو بے دھیانی میں اُٹھا کر ورق پلٹا۔

پہلے ہی صفحہ پر ایک عبارت پہ نگاہ ٹھہر گئی۔
محبت کرنے والے بڑے حوصلوں کے مالک ہوتے ہیں۔

مجھے نہیں خبر یہ کس کا قول ہے، کس کے لیے کہا گیا، اور یہاں کون لکھا گیا لیکن۔ ۔ ۔اگلے چند ہی لمحے، مجھ پہ اس جملے کے کئی راز فاش کر گئے اور مجھے اس نفرت و تلخی کی حدوں کو چھوتی دنیا میں جینے کا سلیقہ آ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).