جان پرکنز کے حوالہ جات اور ہمارے معاشی ماسٹر مائنڈ


معاشی استحکام سیاسی اور سماجی استحکام کی ضمانت ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ستر سالوں کے بعد بھی پاکستان نازک دور سے ہی گزر رہاھے۔ کیونکہ معاشی استحکام کبھی اس سرزمین کو میسر ہی نہیں آیاھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی آزادی اور معاشی خودمختاری کبھی بھی ہمارا مقدر نہیں ٹھہری ہے۔ گزشتہ دنوں سے عمران خان صاحب جان پرکنز کا حوالہ دیتے نظر آئے ہیں۔ اور ان کے دیے گئے حوالہ جات کو ان کے وزراء بھی پریس کانفرنس میں دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اگر جان پرکنز کے حوالہ جات کو دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے، جیسے خان صاحب نے پاکستانی معیشت کو گہرائی سے سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ جان پرکنز نے اپنی کتاب اکنامک ہٹ مین جس کا اردو ترجمہ معاشی دہشت گردی کے نام سے موجود ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے مختلف واقعات اور تجربات کو بیان کیا ہے۔ جس کے مطابق سامراجی ملک امریکہ کس طرح بڑے بڑے ذہن کے مالک اپنے لوگوں کو منصوبہ بندی کے تحت اٹھاتا ہے، انہیں ایک خاص قسم کا ماحول میسر کیا جاتا ہے۔ جہاں ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ اور تربیت پانے والوں کے ذہن میں ملک اوردنیا کی خدمت کو بھر دیا جاتا ہے۔ تربیت پانے والے ان لوگوں کو مختلف ممالک جہاں قیمتی قدرتی ذرائع موجود ہوں، وہاں بھیجا جاتاہے، وہاں کی حکومتوں کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور ذرائع کو مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ لوٹا جاتا ہے۔

یہ تربیت یافتہ لوگ مختلف ممالک میں بھیج کر وہاں کی حکومتوں کو ترقی پانے کے معاشی مشورے دیتے ہیں، اور ان حکومتوں کو باور کروایا جاتا ہے، کہ اگر وہ ان منصوبہ جات پہ مکمل عمل پیرا ہوتے ہیں تو مستقبل قریب میں ان کا ملک معاشی استحکام حاصل کر لے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ کیونکہ دیے گئے مشوروں کا اس ملک کی حقیقی زندگی سے بہت دورکا تعلق ہوتا ہے۔ مقصد ان ممالک کا معاشی استحصال کرنا اور اپنی مصنوعات کی منڈی بنانا ہوتا ہے۔

کئی ممالک میں وہاں کے وزیر خزانہ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ اور ان کے ذریعے مختلف معاشی منصوبوں کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ اور اس طرح ان ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ملکوں کے معاشی استحصال کا بازار گرم رکھا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پہ گزشتہ حکومت کے وزیر خزانہ کو اکنامک ہٹ مین کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ لیکن ایک بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ کیا کسی کتاب کو پڑھ لینا اور اس کا حوالہ دینا کافی ہوتا ہے۔ یا اس سے سیکھ کے عملی تجربہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

پاکستانی معیشت پہ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، ڈالرکی بڑھتی ہوئی قدر، سود کی مد میں بجٹ کے ایک بڑے حصہ کا چلے جانا، برآمدات کا حدف کم ہوتے جانا، آئی ایم ایف سے قرضہ لینا اور اس کی شرائط پہ عمل کرنا، ان سب کے ہوتے ہوئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں حکومت کی جانب سے ایگریسیو ٹیکس پالیسی معیشت کو مسائل کے چنگل سے نکالنے کی بجائے مزید مسائل کو بڑھاوا دے گی۔ کیونکہ ہماری پیداواری صلاحیت بہت کم ہوتی جا رہی ہے۔

جس کی وجہ سے برآمدات بھی کم ہیں۔ اوپر سے درآمدات کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ سارا پیسہ ان درآمدات کی مد میں ملک سے فرار ہو رہا ہے۔ ایسے میں اگر ایگریسیو قسم کا ٹیکس نیٹ لایا جائے گا، توسرمایہ کار پہلے ہی باہر سے پاکستان میں آکے سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، ایسی حکمت عملی سے باہر سے آنے والی سرمایہ کاری کو اور بھی دھچکا لگے گا۔ جس کا نتیجہ مزید معاشی مسائل کی شکل میں نکلے گا۔

معیشت کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لئے درآمدات کے حجم کو کچھ نہ کچھ کم کرنا ہوگا۔ اور اس میں کمی تبھی ممکن ہے، اگر ملک میں پیداواری یونٹس کو لگایا جائے، تا کہ درآمدات کا نعم البدل تیا رکیا جاسکے۔ زرعی ملک کے ہوتے ہوئے اگر کیچپ، آلو کے بنے پاپڑ، ڈیری پروڈکٹس اور دیگر اشیاء غیرملکی کمپنیوں کی خریدنا ہے تو پھر کاہے کا زرعی ملک ہوا۔ جلد یا بدیر پیداواری عمل ہی پاکستانی معیشت کو مسائل سے نکا ل کے مضبوط معاشی ملک بنا سکتا ہے۔ ورنہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈنگ ٹپاؤ پروگرام تو ہو سکتا ہے۔ لیکن اسے مناسب معاشی منصوبہ بندی نہیں کہہ سکتے ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ کہ پاکستانی معیشت نوآبادیاتی معیشت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو وقت کے ساتھ مختلف اکنامک ہٹ مین ملتے رہے ہیں، جنہوں نے صرف سبز باغ ہی دکھائے ہیں۔ کبھی بھی پیداواری منصوبہ بندی کی طرف دھیان نہیں دیاہے۔ اب تبدیلی کی بات کرنے والوں کو اس طرف توجہ دینا ہوگی، ویسے بھی اب تو حکومتی ذمہ داروں نے جان پرکنز کو پڑھ لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).