میں بھی بریگیڈیئر اسد منیر کی طرح خودکشی کرنا چاہتی تھی


خودکشی کہ بارے میں میں نے پہلی بار شاید آٹھ یا نو برس کی عمر میں پہلی بار سنا تھا۔ ایک صبح محلے میں شور مچا کہ ایک بچے نے میٹرک کے امتحان میں خراب نتیجے کے خوف سے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی ہے۔ اس روز مجھے پتا چلا کہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ہم نے کئی خودکشیوں کی خبریں سنی اور پڑھیں، لیکن بچپن کا وہ واقعہ آج بھی پوری تفصیل سے یاد ہے۔ یہ ہمارا خودکشی سے پہلا تعارف تھا۔ وہ خاندان اس حادثے کے بعد علاقے سے چلا گیا۔ اتفاق زمانہ ہیں کہ ان کے جانے کے بعد اس گھر میں ہم بھی چند ماہ رہے۔ ہمارے گھر آنے والے مہمان اس گھر میں موجود بچے کی روح سے ڈرنے کا ڈرامہ بھی کیا کرتے، لیکن ہمیں کبھی کوئی نظر نہ آیا۔

میرا بھائی جب نفسیات میں مختلف موضوعات پر پڑھائی کرتا تو اسے تجربے کے لیے مختلف لوگوں کی ضرورت پڑتی زیادہ تر تو اسے کوئی ساتھی ہی تجربات کے لیے مل جایا کرتا، کبھی کبھی وہ ہم پہ بھی کچھ ٹیسٹ آزماتا۔ ایک روز اس نے میرا لمبا چوڑا ٹیسٹ لیا، باقی سب میں تو نتائج مناسب تھے لیکن خودکشی والے حصے میں میرے اندر خودکشی کی خواہش یا خودکشی کے جرثومے نظر آ ے۔ باقی نتیجوں کو تو اس نے مذاق میں اڑا دیا لیکن خودکشی والے حصے میں آ کر پوچھنے لگا ”اؤ پاگل کیا واقعی تمہارا خودکشی کا دل چاہتا ہے؟ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا“۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ جب یہ بات مذاق بن گئی لیکن چند سال بعد ہی میرے سامنے آنے لگی۔

پچھلے ڈھائی برس میں کئی مواقع پر کوشش کے باوجود میں خودکشی نہ کر سکی۔ کچھ روز قبل ایک خودکشی کی خبر پڑھنے کے بعد میں کئی دن اداس ہو گئی، مرنے والے سے نہ میری کوئی واقفیت تھی نہ ہی کوئی تعلق لیکن شاید ان کی تکلیف اور میری تکلیف میں کوئی مماثلت تھی، درد کا رشتہ تھا۔

برگیڈئیر رٹائرڈ اسد منیر نے اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لی گلے میں پھندا ڈال کے۔ نیب کے پاس جب بھی کوئی کیس جاتا ہے تو وہ چلتا ہی نہیں، نہ ہی بیل ہوتی ہے۔ اور پھر سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جس انداز میں ملزم کو مجرم بنا کہ TRP کی لالچ میں بار بار ایک ہی خبر کوبریک کرتے ہیں، اس تذلیل سے بچنے کے لیے خودکشی کے علاؤہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں۔ لہذا انہوں نے موت کو زندگی سے بہتر جانا اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہی ختم کر دیا۔ کیس بھی ختم ہو گیا، فائل بھی بند ہوی۔ ذلت و رسوائی سے بچنے کے لیے خودکشی کرنے والے اسد منیر پہلے شخص نہیں، نا ہی آخری ہیں۔ خودکشی کی خواہش تو ہر پھنسے ہوئے شخص کی ہے۔

چار اکتوبر 2016 کے منحوس دن جب ہمارے گھر میں ایجنسی کے لوگ دندناتے پھر رہے تھے، ہم مجبور اپنے ہی گھر میں محصور تھے، جس وقت میرے بھائی پہ بے بنیاد اور جھوٹے الزام میں اسے جامعہ کراچی کے سامنے سے اغوا کیا گیا، جس وقت ہم مکمل تاریکی میں تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ شب خون آخر کس گناہ کی سزا میں مارا گیا ہے۔ جب ایک ان دیکھی انجان خاتون کی نام نہاد عزت کی حفاظت کی خاطر ہمارے گھر کی سب خواتین کو وہ سرکاری اہلکار ہراساں کر رہے تھے، اور جب ہمارا میڈیا ٹرائل کیا گیا اس دن سے لے کر آج اس آرٹیکل کو تحریر کرنے تک ناجانے کتنی بار میں اپنے آپ کو ختم کرنے کا فیصلہ کرتی ہوں پھر صرف یہ سوچ کہ اپنے آپ کو روک لیتی ہوں کہ کیا پتا اس بار رہائی مل جائے، ضمانت ہو جائے۔

ایک ایسا بے بنیاد کیس جس کے عبوری چالان کو جمع ہونے میں چھ ماہ لگ گئے۔ ستر تاریخیں لگیں جن میں سے چالیس میں سرکاری وکیل، مدعی اور ایف آئی اے والے تقریباً ایک ساتھ ہی غیر حاضر رہے، ایسے میں کیس نا چلنے کی بنیاد پر بھی ضمانت نامنظور کر دی گئی۔

ہم جیسے ہزاروں لوگ جنہوں نے جیل، کورٹ، ایف آئی اے، نیب و دیگر اداروں کو کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی وہ اپنی کم علمی میں امیدیں وابستہ کرتے ہیں، لیکن جس شخص کو ان سرکاری چکر بازیوں کی پہلے سے جانکاری ہو وہ بریگیڈیئر صاحب کی طرح ہی سوچے گا۔

اب آپ ہی بتائیں کیا خودکشی ہی نجات کا واحد ذریعہ نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).