تبدیلی کی ہوا،چوتھا ستون اور نواز شریف


کچھ دن سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا تبدیل ہوتا رنگ، چند جیّد اور کہنہ مشق جغادری اور درباری اینکرز اور صحافیوں کا بدلا ہوا لب و لہجہ اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے پروگراموں اور خبر ناموں میں نئے پاکستان کے نمائشی اور فرمائشی حکمرانوں کی نا اہلی، بد ترین کارکردگی اور کرہشن کی ہوش ربا داستانوں کو گلہ پھاڑ پھاڑ کر منظر عام پر لائے جانے کا منظم اور مربوط رجحان دیکھ کر لگتا ہے کہ سرپرستوں نے نوزائیدہ اور نووارد سلیکٹڈ کی کار گزاری سے دل برداشتہ ہو کر اپنی بے جا اور جا بجا حمایت سے ہاتھ اٹھا لئے ہیں۔

ادھر حکمران پارٹی کے اندر دو بڑے مہروں کی لڑائی بھی حکومت کے اندرونی خلفشار اور انتشار کو ظاہر کر رہی ہے۔ جب دکھانے کے لیے کارکردگی نہ رہے تو ایسی فرسٹریشن اور ڈپریشن عام سی بات ہوتی ہے۔ راقم کسی بھی سیاسی، انتظامی اور حکومتی تبدیلی سے پہلے میڈیا کے اسلوب میں آنے والا بدلاؤ جو بتدریج تناؤ اور دباؤ میں بدلتا جاتا ہے، کا بغور مشاہدہ کرنے کا عادی ہے۔ قارئین کو یاد ہے کہ میڈیا کے کردار میں ایسی ہی ڈرامائی تبدیلیاں دو ہزار سولہ میں نواز حکومت کے خلاف بھی آئی تھیں جب شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک ہر چینل پر شریف فیملی اور حکومت کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی کہانیوں کو مرچ مصالحہ لگا کر پھیلایا جاتا تھا۔

جو لوگ چند ماہ پیشتر دشمن کو ووٹ کے ذریعے شکست دینے، 2018 کو تبدیلی کا سال قرار دینے اور وتعز من تشا و تزل من تشا کی نوید سنا رہے تھے اور الیکشن کے بعد چھ ماہ تک سیاہ کو سفید اور زشت کو خوب دکھانے کے نادری احکامات صادر فرما رہے تھے، آج وہی لوگ نئی نویلی حکومت کی دلہن کے ہاتھوں کی مہندی اترنے سے قبل ہی لاڈلے سے نظریں چرانا شروع ہو گئے ہیں۔

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا

وہ شخص ایک رات میں کتنا بدل گیا

اس پس منظر میں جب رات کو ایک مشہور ٹی وی چینل پر پہلی ہی مفصل خبر پشاور میٹرو منصوبے کی ناقص شروعات، ڈیزائنگ میں کثرت سے ہونے والی بے تکی تبدیلیوں اور تکمیل کے لیے مقرر کی گئی مدت میں اضافے اور افتتاح کی مجوزہ تاریخ میں بار بار توسیع کے حوالے سے دیکھی تو دبے پاؤں آنے والی تبدیلی کی بھاری بھرکم آہٹ بہت قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

تو کیا میڈیا کے بدلتے کردار سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ سرپرستوں نے اپنے اس فیصلے سے بعد از خرابی بسیار رجوع کر لیا ہے کہ نواز شریف کی دشمنی میں ان کا انوکھے لاڈلے کو کھیلنے کے لیے پورا ملک ہاتھ میں دینا ملک و قوم کے ساتھ بہت بڑا ظلم تھا۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو لاڈلے کی رخصتی سے قبل انہیں ملک کی سیاسی بساط پر آئندہ کے لیے تبدیلی کے مہرے آگے پیچھے کھسکا کر ملک کی تعمیر و ترقی کے سفر کو بریک لگانے جیسے خطرناک اور قبیح عمل سے ہمیشہ کے لیے تائب ہونے کا حقیقت پسندانہ فیصلہ بھی کر لینا چاہیے۔

نئے پاکستان والوں نے جس طرح ووٹ دینے اور ووٹ شمار کرنے والوں کی امیدوں کا خون کیا ہے، اس سے ہر دردِ دل رکھنے والا پاکستانی نہ صرف آگاہ ہے بلکہ وطن اور اہل وطن کی حالت زار دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو رہا ہے۔ اسی حالت کے پیش نظر میڈیا کی ڈوریں ہلائی جارہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ محض نئے پاکستان والوں پر دباؤ ڈال کر انہیں راہ راست پر لانے کا ایک آزمودہ حربہ ہے جب کہ کچھ کے نقطہ نظر کے مطابق فیصلہ ساز کپتان کے بچگانہ اور احمقانہ فیصلوں سے عاجز آ چکے ہیں۔

وہ پہلے ہی تھکے ہارے اور ناتجربہ کار گھوڑے کو ریس میں اتار کر خود آگاہی اور جہاں شناسی کے رموز سے بیگانہ ہونے کا الزام لے چکے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ تمام قومی اور بین الاقوامی شماریاتی ادارے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سربراہ مستقبل قریب میں بھی معاشی منظر نامے میں کسی بہتری کے بجائے ابتری اور تنزل کی وعید سنا رہے ہیں۔

یہ میڈیائی مجاہدین اور خود کش بمبار ہی تھے جنہوں نے کسی کے جنبش ابرو کے اشارے پر تبدیلی کے لیے انوکھے لاڈلے کو آزمانے کا مشورہ دیا تھا۔ کاش آزمائش اور تجربے کے لیے فیصلہ ساز پورا ملک اناڑی لاڈلے کے ہاتھ میں دینے کے بجائے کسی یونین کونسل کی کونسلری دے کر اسے آزما لیتے تاکہ آج ملک کے انگ انگ سے خون نہ رس رہا ہوتا۔ ملک کا چوتھا ستون ہونے کا دعویدار میڈیا کہتا ہے کہ وہ پارٹی بننے کے بجائے سوال اٹھاتا ہے۔

کاش اسے کوئی بتاتا کہ سوال اٹھانے اور دست سوال دراز کرنے میں کتنا فرق ہے۔ میڈیا کو زعم ہے کہ وہ بڑی تندہی سے ملکی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مسائل کی نشاندہی اور لوگوں کے کردار کی ٹارگٹ کلنگ میں بعد الشرقین ہے۔ میڈیا کی ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ حکومتیں بنانے اور گرانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میڈیا طاقتوروں کے آگے مرغ دست آموز ہے جو فیصلہ سازوں کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہو کر بعد میں لکیر پیٹتا رہ جاتا ہے۔

یہی میڈیا اب نو ماہ بعد ہی اپنے مالکوں کے اشارے پر خم ٹھونک کر نئے پاکستان والوں کی جان کو آگیا ہے۔ ریاست کا یہی چوتھا ستون جو ہر وقت طاقتوروں کے سامنے کمر خمیدہ اور لرزیدہ رہتا ہے، آج کل قوم کو خوش خبری سنا رہا ہے کہ حکومت طشتری میں رکھ کر نواز شریف کو پیش کرنے کے جتن کیے جا رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کو ریڈ وارنٹ کے ذریعے لانے کے بجائے ریڈ کارپٹ بچھا کر استقبال کی پوری تیاریاں ہیں مگر فی الحال نواز شریف کی طرف سے سرد مہری ہے۔

کیونکہ نواز شریف نے جن نامساعد اور مشکل ترین حالات میں ووٹ کو عزت دینے کے جانکاہ سفر کا آغاز کیا تھا جب اس سفر کے ثمر آور ہونے کا وقت آرہا ہے تو وہ عصر کے وقت روزہ توڑ کر اپنے کیے پر پانی کیسے پھیر سکتے ہیں؟ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ فیصلہ ساز نواز دشمنی کی تہمت تو مول لے سکتے ہیں، ملک دشمنی کا الزام ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).