د س روپے کلو ٹماٹر اور ہزار روپے کی کڑھائی


پاک بھارت تعلقات اکثر و بیشتر کشیدہ ہی رہتے ہیں پھر ہندوستان کو پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینے کا بھی جنون کی حد تک شوق ہے کچھ عرصے پہلے ہندوستان نے بارڈر پر ہونے والی جھڑپوں کے ساتھ بزعم خود پاکستانیوں پر ایک اور بم پھوڑا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہندوستان پاکستان کو ٹماٹر فروخت نہیں کریگا جس کا واضح اثر یہ تھا کہ بازار میں ٹماٹر کی قیمت سو روپے سے تجاوز کر گئی تھی اور خریداروں نے ٹماٹر خریدنا کم کیے اور پریشان بھی ہوگئے کیونکہ پاکستانیوں کی زندگی میں آلو، پیاز، ٹماٹر کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کیونکہ کوئی سبزی ہو نہ ہو ان تین سبزیوں سے وہ بریانی، کڑھائی، آلو ٹماٹر، ٹماٹر کی چٹنی اور دیگر پکوان بنا کر دسترخوان کو سجا لیتے ہیں۔

اس لیے جب اب وقت گزرنے کے ساتھ ٹماٹر کی قیمت کم ہوئی ہے تو شہریوں نے سکھ کا سانس لے کر ٹماٹر خریدنا شروع کردیے۔ اس لیے جب آپ سبزی خریدنے بازار کارخ کرتے ہیں تو آپ پر وہ انکشافات ہوتے ہیں کہ آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور آپ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ برا کرتے ہیں یا پھر آپ خود اپنے ساتھ برا کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ سبزی بازار میں کھڑے ہیں اور ایک ٹماٹر کے ٹھیلے والا آواز لگاتا ہے ٹماٹر دس روپے کلو، یہ آواز سن کر پاکستانیو کی نفسیات کے مظابق اگر کسی رویے کی امید کی جا سکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ دیکھے تو سہی دس روپے میں کیسے ٹماٹر ہیں؟ اور دیکھنے پر پتا چلتا ہے کہ وہ صرف سائز میں ہی چھوٹے نہیں، بلکہ گلے سڑے بھی ہے، جس کی وجہ سے انھیں خریدنے سے آپ گریز کرتے ہیں مگر وہیں موجود ایک اور ٹھیلے والا آواز لگاتا ہے کہ کوئی بات نہیں مت خریدو! یہ ٹماٹر مشہور زمانہ ہوٹل میں پہنچائے جائیں گے۔

یہ سن کر یقینا ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں کہ کیا جس ہوٹل کی کڑھائی ہم اتنے شوق سے کھاتے ہیں اور ہزاروں روپے دے کر خریدتے ہیں وہ ان ٹماٹروں سے بنائی جا تی ہے؟ کیا ہم خود اپنے لیے بیماریاں خریدتے ہیں؟ کیا یہ ہوٹل والے ہم سے ہزاروں روپے بٹور کر ہمیں اچھا کھانا بھی پیش نہیں کرتے؟

ہماری حکومت کیوں حادثوں کا انتظار کرتی ہے؟ وہ کبھی تجاوزات کے خلاف آپریشن کرتی ہے، کبھی بجلی چوروں کے خلاف، کبھی نجی اسکولوں کے خلاف اسے کبھی کیوں ان ہوٹل مالکان کے خلاف کارووائی کا خیال نہیں آتا؟ کیوں وہ ان کے باورچی خانوں پر چھاپے مار کر انھیں اپنے باورچی خانے صاف ستھرے رکھنے اور گاہگوں سے پیسے وصول کرکے انھیں اچھا کھانا پیش کرنے پر مجبور نہیں کرتی اور اگر حکومت نہیں کرتی تو کیوں نہ ہم فیصلہ کرلے کہ ہمیں نہیں دینے دس روپے کلو ٹماٹر والی کڑھائی کے ایک ہزار روپے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).