انتہا پسندی اور عدم برداشت


محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں دلیل کی قوت مر رہی ہے۔ رفتہ رفتہ مکالمے کی روایت کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو تسلیم کرنا تو درکنار، ہم اسے سننے اور سمجھنے پر بھی آمادہ نہیں ۔ ہمارے رویے کرخت اور مزاج ہٹ دھرم ہو چکے ہیں۔ اکثر و بیشتر اپنی ہٹ دھرمی کو ہم اصول پسندی گردانتے ہیں۔ تحمل، برداشت، رواداری اور اعتدال جیسے عوامل ہماری زندگیوں سے خارج ہوتے جا رہے ہیں۔ سماج میں دلیل کی اہمیت باقی نہ رہے، تو گالی اور گولی کی زبان رواج پاتی ہے۔ اسکے نتیجے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے عوامل جنم لیتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہی کچھ ہوا ہے۔ مفتی تقی عثمانی جیسے معتدل نظریات کے حامل عالم دین پر قاتلانہ حملہ اور بہاولپور کے کالج پروفیسر کا اپنے شاگرد کے ہاتھوں قتل اسکی تازہ مثالیں ہیں۔

کہنے کو ہم مسلمان ہیں۔ دین اسلام کے ماننے والے۔ یعنی وہ مذہب جو تحمل، بردباری اور اعتدال جیسے معاملات کا درس دیتا ہے۔ ہم ایسے نبی ﷺ کے پیروکار ہیں، جنہوں نے بزور طاقت نہیں، بزور دلیل لوگوں کو اسلام اور قرآنی تعلیمات کی جانب مائل کیا۔ ہم سب قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا سیاسی رول ماڈل قرار دیتے ہیں۔ وہ قائد جنہوں نے اپنی سیاست کو دنگے فساد سے ہمیشہ دور رکھا۔ حکمت، دانائی اور دلیل کے ساتھ اپنا موقف منوایا اور پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔ ایسی شاندار مذہبی اور سیاسی تاریخ رکھنے کے باوجود ہم دلیل کو اہمیت دینے، مخالف نقطہ نظر کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ ایک عدم تحمل کی کیفیت ہے جو ہمیں ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔ گھرو ں میں، دفاتر میں، تعلیمی اداروں میں، سیاست میں، صحافت میں، ہر جگہ انتہا پسندی اور عدم برداشت جیسے عوامل فروغ پذیر ہیں۔ ہم سب اس صورتحال سے نالاں رہتے ہیں، دوسروں کے رویے کی شکایت کرتے ہیں،ان پر تنقید کرتے ہیں۔ مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہمیں فرصت ہے، نہ اپنی اصلاح کی ضرورت۔

مثال کے طور پر قومی سیاست پر نگاہ ڈالیں۔ ہر وقت افراتفری اور انتشار کی صورتحال نظر آتی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت بڑھانے میں ہر جماعت بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ قومی معاملات خواہ کتنے ہی سنجیدہ نوعیت کے کیوں نہ ہوں، صلح صفائی اور حکمت و دانائی کے ساتھ معاملات سلجھانے کی راہ کم ہی اختیار کی جاتی ہے۔ اسی طرح جو سیاست دان جتنی ڈھٹائی اور زبان درازی کے ساتھ اپنا سیاسی نقطہ نظر پیش کرتا ہے، ٹی وی ٹاک شوز میں جتنا زیادہ بلند آہنگ اور کرخت لہجہ اختیار کرتا ہے، اپنی جماعت میں اتنی زیادہ داد سمیٹتا اور بڑا عہدہ پاتا ہے۔ ایسے حالات میں شائستگی اور رواداری جیسے عوامل کیسے فروغ پا سکتے ہیں؟ ہمارے قومی میڈیا کا بڑا حصہ بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ بیشتر ٹی وی اینکرز دلائل پر مبنی مکالمے کے بجائے، مخصوص نقطہ نظر کی ترویج میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ جج بن کر فیصلے صادر کرنے اور سزائیں سنانے میں بھی انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو کسی رکاوٹ کے بغیر اپنا موقف اور نقطہ نظر پیش کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ مگر بات کرنے کا سلیقہ اور ڈھنگ نہیں سکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ذیادہ تر گالی گلوچ دیکھنے کو ملتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ہم سب معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے ذمہ دار ہیں۔ مگر خود کو قصور وار ماننے کو تیار نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دلیل کی روایت کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا۔ گھر میں جہاں بچوں کی تربیت ہونا ہوتی ہے، وہاں ہم بچوں کو دلیل سے بات سمجھانے کے بجائے، ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کروانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ عمومی طور پر تعلیمی اداروں میں بھی طالبعلموں کے سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ بیشتر جامعات میں بھی آزادانہ مباحثے کا کوئی تصور موجود نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مذہبی موضوعات پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ تقسیم کی لکیریں اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ اب سیاسی اور سماجی موضوعات کو کھل کر زیر بحث لانا بھی کار محال ہے۔ بیشتر مذہبی حلقوں کی صورتحال سے بھی ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ اپنے کہے کو حرف آخر قرار دیتے ہوئے، مخالف نقطہ نظر کو رد کرنے کی روایت عام ہے۔

 آج کل ہم سب بہت جوش و خروش سے نیوزی لینڈ کی کرائسٹ چرچ مسجد میں ہونے والے سانحے کے بعد وزیر اعظم جسنڈا آرڈن کے طرز عمل کی تعریف کر رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم، اور اسکے عوام نے جس درد مندی، محبت اور اپنائیت کیساتھ وہاں بسنے والے مسلمانوں کی دلجوئی کی اور انکے ساتھ اظہار یکجہتی کیا وہ واقعتا قابل تعریف ہے۔ نیوزی لینڈ میں پارلیمانی سیشن کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔ وزیر اعظم جسنڈا نے اسلام علیکم سے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ نبی ﷺ کے فرمان کا حوالہ دیا۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر اذان نشر ہوئی اور جمعہ کے اجتماع میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور ہزاروں غیر مسلموں نے شرکت کی۔ ایسے تمام مناظر کی ہم کھلے دل سے تعریف کر رہے ہیں اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے اس قدر مثبت طرز عمل پر تالیاں پیٹ رہے ہیں۔

 سوچنے کی بات مگر یہ ہے کہ کیا ہم اپنے ہاں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا حوصلہ اور ظرف رکھتے ہیں؟ اگر اپنی اقلیتوں کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے یہی طرز عمل کسی پاکستانی سیاسی رہنما نے اختیار کیا ہوتا ۔ یا ہماری پارلیمنٹ ایسے اقدام کی ” مرتکب” ہوئی ہوتی تو ہمارا رویہ کیا ہوتا؟ ہمارے ہاں توچھوٹی چھوٹی باتوں پر کفر کے فتوے عائد کر دئیے جاتے ہیں۔ اور غداری کے سرٹیفیکیٹ تھما دئیے جاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ نیوزی لینڈ حکومت کا طرز عمل نہ صرف مغربی ممالک کو بلکہ خود ہمیں بھی درس دیتا ہے کہ اپنی اقلیتوں کیلئے ایسی ہی محبت اور رواداری اختیار کی جائے۔

 جہاں تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کی بات ہے، ہمارے ہاں ریاستی سطح پر اسکے تدارک کیلئے کوشیشیں ہوتی رہی ہیں۔ ریاست نے اپنی عسکری قوت کے زور پر دہشت گردی کے عفریت پر کافی حد تک قابو پایا بھی۔ مگر انتہا پسندی کے عفریت پر قابو پانا صرف اسی صورت ممکن ہے جب دلیل اور مکالمے کی روایت مضبوط ہو گی۔ اس تناظر میں سنجیدہ عملی اقدامات کرنے کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ جنوری 2015 میں، انتہا پسندی کے خاتمہ کے حوالے سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان اتفاق رائے سے منظور ہوا تھا۔ مگر اتنے سال گزرنے کے باوجود ہم اس کے مکمل نفاذ کو ممکن نہیں بنا سکے۔ اسی طرح جنوری 2018 میں پیغام پاکستان کا اجرا کیا گیا۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سو سے زائد علمائے کرام نے اس کی متفقہ منظوری دی تھی۔ تاحال اس پر عمل درآمد کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں ہو سکا ہے۔ میڈیا کو سیاسی موضوعات سے فرصت نہیں، لہذا ان دونوں دستاویزات کا ذکر بھی ہم خال خال ہی سنتے ہیں۔ ایسے میں ہم بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عدم برداشت پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟

 اس حقیقت کی تفہیم ضروری ہے کہ عدم برداشت کا شکار معاشرے ہمیشہ عدم توازن کا شکار رہتے ہیں۔ تحمل، کشادہ ظرفی اور جمہوری سوچ معاشروں کو متحد اور مضبوط رکھنے والے عناصر ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ فرد ہو یا کوئی جماعت، نا خواندہ لوگ ہوں یا تعلیم یافتہ، اہل صحافت ہوں یا اہل علم و دانش، سب تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ ہر کوئی اپنے بیانیے کو برحق اور دوسرے کے نکتہ نظر کو یکسر غلط خیال کرتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ معاملہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ مد مقابل کے وجود ہی کو ختم کر دیا جائے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے یہ انتہا پسندانہ روش بڑھتی جا رہی ہے۔ لازم ہے کہ اہل دانش اس قومی مرض کے اسباب کا سراغ لگائیں۔ بنیادی ذمہ داری ارباب تعلیم کی ہے کہ وہ نصاب اور درس گاہوں کے ماحول کے ذریعے، ذہنوں کی تعمیر کریں۔ نیوزی لینڈ کے سانحہ کے بعد وہاں کی حکومت اور معاشرے کے رد عمل نے ہمیں ایک راہ سجھائی ہے۔ یہ راہ ہمارے دین کی تعیمات کے عین مطابق ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم انتہا پسندی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں اور اس مرض سے نجات کا کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آ رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).