نواز شریف کا سب سے بڑا امتحان


نوازشریف اس وقت عمر اور تجربہ میں ملک کے سب سے بڑے سیاست دان ہیں۔ وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ ملک کے واحد سیاستدان ہیں جو تین مرتبہ وزیر اعظم اور دو مرتبہ سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ وہ اکلوتے سیاستدان ہیں جنہوں نے کسی الیکشن میں غیر متنازع دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ اس طرح ان کو ملک کا مقبول ترین لیڈر بھی کہا جا سکتا ہے۔ شروع میں ان کے اتحادی دائیں بازو کی مذہبی سیاسی پارٹیاں تھی اب ان کے گرد بائیں بازو کی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں۔ وہ فوجی آمر ضیا الحق کے زیر سایہ حکومت میں آئے تھے لیکن ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کبھی نہیں بنی۔ وزارت اعلی ٰکے دونوں ادوارکے علاوہ ان کے مقتدر حلقوں سے تعلقات ہمیشہ ہی خراب رہے۔ انہوں نے جلاوطنی بھی کاٹی جس دوران ان کی آواز تک کو لمبے عرصہ تک عوام سے دور رکھا گیا اور آج کل سزا یافتہ قیدی ہوتے ہوے گھر میں آزاد بیٹھے ہیں۔

 2014 کے دھرنے میں واضع ہو گیا تھا کہ اگلا الیکشن نواز شریف کو عمران پلس کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ دھرنے میں طے شدہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد بھی مسلم لیگ کی حکومت کو زیر عتاب ہی رکھا گیا۔ اس دور کو نوازشریف کا مشکل ترین دور کہا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد کی سڑکوں چوراہوں سے لے کرڈی چوک کی غلام گردشوں اور سپریم کورٹ کی راہداریوں تک ہر جگہ پر ان کو اس دور میں ہر قسم کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیروں کو یہاں تک کہنا پڑا کہ ہمیں حکومت کرنے دو ورنہ ہم اتنے سیدھے بھی نہیں کہ جب تمہاری باری آے تو تمہیں چین سے کا م کرنے دیں گے۔ اس وقت پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر مشکل دور سے گذر رہا تھا۔ ایک الیکٹڈ وزیر اعظم کو جسے آئینی طور پر صرف پارلیمنٹ ہی ہٹا سکتی تھی، عدالتی فیصلے سے حکومت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ نواز شریف نے اس عدالتی حکم کو مان کر ملک کو انتشار سے بچا لیا۔ ان کے اس سرنڈر کو سپریم کورٹ نے بھی قابل تحسین قرار دیا۔

2018 کے الیکشن میں ہر طرف مخالفت کی ہوائیں چل رہی تھیں پھر بھی ان کو بہت کم فرق سے ہرایا جا سکا۔ ان کی پارٹی کی ٹکٹیں آخری وقت میں لوگوں نے واپس کر کے آزاد الیکشن لڑنا پسند کیا۔ انتخابات سے کچھ دن پہلے مریم نواز، کیپٹن(ر) صفدر اور حنیف عباسی کو سزا سنا کر جیتی جانے والی سیٹوں پر الیکشن ملتوی کر دیا گیا۔ نواز شریف نے الیکشن کی مہم کے شروع کے دن لندن اور آخری ہفتہ جیل میں گذارا۔ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات کسی نہ کسی حد تک متنازع ہوتے ہیں لیکن اس مرتبہ اعتراضات بہت زیادہ تھے۔ اس الیکشن میں مولانا فضل الرحمان کی پارٹی بھی بری طرح پٹ گئی۔ مولانا کے بارے میں محترمہ بینظیر بھٹو کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے باہر ہوں تو انتہائی خطرناک ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ اپنے مدارس کے بچوں کو ساتھ لے کر اسلام آباد کا رخ کر دیں تو لوگ کینیڈا کے بھاڑے کے انقلابی کو بھول جائیں۔ مولانا الیکشن کے نتائج کو مسترد کر چکے تھے اور تحریک چلانے کے پر زور حامی تھے۔ تمام پارٹیوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے لگنے والے نعرے قابل تحریر ہی نہیں۔ تمام دباؤ میاں نواز شریف پر تھا لیکن انہوں نے کہا کہ پاکستان نئے الیکشن کا متحمل نہیں ہو سکتا اور احتجاجی تحریک سے ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔

امریکی انتخابات میں دو مرتبہ ایسے مواقع آئے۔ 1876 میں سموئیل ٹیلڈن پاپولر ووٹ جیت چکا تھا لیکن ایک خصوصی کمیشن نے متنازع الیکٹورل ووٹ رتھرفورڈ کو  دے دئے تو صدر کو خطرہ ہوا کہ کہیں ہارنے والے امیدوار کے حامی دھاوا نہ بول دیں اور اس نے واشنگٹن کے ارد گرد موجود چھاونیوں میں فوج اکٹھا کرنا شروع کردی۔ اس کے بعد دوسرا موقع 2000 میں آیا۔ یہ الیکشن بھی متنازع تھا اس میں الگور پاپولر ووٹ جیت چکا تھا لیکن فلوریڈا کے الیکشن کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا اور فیصلہ جار ج بش کی حمایت میں آ گیا۔ الگور کے حامیوں کے جذبات بہت زیادہ بلند تھے لیکن اس کی ایک تقریر نے ان کو ٹھنڈا کر دیا جس میں اس نے کہا کہ غیر جانبدار رہتے ہوے ہمیں حب الوطنی کو رستہ دینا چاہیے۔ اس کے حامی لڑائی جاری رکھنا چاہتے تھے لیکن اس کا خیال تھا کہ جیسے دوسرے جمہوری ممالک میں ہارنے والا نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے، سیاسی عمل میں تعطل کا باعث بنتا ہے اور ملک میں بدامنی اور خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔ امریکہ ان سب کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس نے خدمت کا ایک دوسرا رستہ تلاش کر لیا اور عالمی موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرتے ہوے نوبل پرائز کا حقدار ٹھہرا۔

نواز شریف نے جو میثاق جمہوریت کے بعد سے کہہ رہے ہیں کہ ہر کسی کا مینڈیٹ کو قبول کیا جاے گا، ان مشکوک نتائج کو بھی قبول کر لیا اور عمران خان کی حکومت میں رکاوٹ بننے کو تیار نہ ہوے۔ اس سے عوام کو یہ پیغام گیا کہ قومی اتحاد ان کی ذاتی خواہشات سے زیادہ اہم ہے۔ یہ ان کا دوسرا امتحان تھا جس میں وہ سرخرو ہوے۔ لیکن ایک بات وہ مسلسل کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ حکومت کرنے کے اہل ہی نہیں۔ یہ پارٹی ملک چلا ہی نہیں سکتی۔ اپنے اتحادیوں اور جگہ جگہ سے جمع کئے گئے لوگوں کو خوش کرتے کرتے اقتدار کی یہ کشتی اپنے وزن سے ہی ڈوب جاے گی۔

الیکشن کے بعد کے آٹھ ماہ میں میاں نواز شریف کو جیل کے اندر اور باہر مختلف مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور اب ان کو وقتی طور پر چھ ہفتے کا ریلیف ملا ہے۔ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ موجودہ حکومت کو لانے والے (عوام؟) اس سے نا امید ہو چکے ہیں اور ملک میں تبدیلی کا ڈول دوبارہ ڈالا جاے گا۔ صدارتی نظام کی باتیں پھر زیر گردش ہے۔ اس کے نفاذ کے لئے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لانا پڑے گی جو موجودہ حالات میں قانونی طریقے سے ناممکن ہے۔ کئی دوسرے آپشن بھی زیر غور ہیں۔

نواز شریف پھر مرکزی اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی بھی کام انتہائی مشکل ہوگا۔ ووٹ کو عزت دو، ان کا بیانیہ ہے۔ یہ نعرہ دلوں میں تو 5 جولائی 1977 سے گونج رہا تھا اس کو زبان میاں صاحب نے دی۔ اب وہ اس پر پہرہ دیتے ہیں یا حالات کے دھارے کے ساتھ بہنا پسند کرتے ہیں یہ صرف ان کا فیصلہ ہوگا۔ اس امتحان سے کامیابی سے گذر گئے تو امر ہوجائیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم نے ان کو پچھلے چالیس سال میں جو دیا ہے وہ لوٹائیں۔ نواز شریف کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اقتدار کا حصول ہی کامیابی کی علامت نہیں ہوتا۔ اگر وہ ہار بھی گئے توپھر بھی بازی مات نہیں ہوگی۔ بعض مرتبہ ہارنے کے بعد منزل تو نہیں ملتی مگر قریب ضرور آجاتی ہے۔ اور سیاسی تحریک کا بنیادی نقطہ جیت جاتا ہے۔ وہ عوام میں اتنا گھر کرجاتا ہے کہ اگلی حکومتوں کو اس پر عمل کرنا پڑتا ہے۔

میک گورن نے ویتنام جنگ کو ختم کرنے کے نعرہ کے ساتھ الیکشن مہم چلائی۔ ہار گیا۔ اس نے کہا، ”اگر ہم نے امن کو صرف ایک دن قریب کر دیا تو ہماری الیکشن مہم کا ایک ایک منٹ، ایک ایک گھنٹہ کام آیا اور ہماری سخت محنت رنگ لے آئی“۔ اگر جمہوریت کی اس کشمکش سے کوئی دوسرا غیر جمہوری آلہ کار جیت بھی جاتا ہے تو میاں صاحب کو اچھی طرح پتہ ہونا چاہے کہ وہ صرف ہارنے والوں کی مرضی سے ہی حکومت کر سکتا ہے۔ اس طرح سویلین بالا دستی کی جدوجہد پھر جاری رہے گی۔

عوام کو ان کا جمہوری حق تو ملنا ہی ہے۔ نوازشریف کی غلطی سے یہ حق کچھ سال تو دور ہوسکتا ہے اس کو مستقل دبایا نہیں جا سکتا۔ لیکن اب کی بار غلطی ان کو اور ان کے خاندان کی سیاست کو مکمل طور پر تباہ کر دے گی۔ اور ان کے بعد کامیابی مستقبل میں آنے والے کسی اور کے نام ہو گی۔ اب یہ فیصلہ انہی نے کرنا ہے کہ وہ اپنے نعرہ”ووٹ کو عزت دو“ کی لاج رکھ کر جمہوریت کی کامیابی کی طرف بڑھنا چاہیں گے یا سر زیر بار منت دربان کئے ہوے وزارت عظمی کا صنم کدہ آباد کریں گے۔

اور یہی ان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).