ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس پر ایک چشم کشا کتاب


متعدد تجزیہ کار کئی بار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی دائیں بازو کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں یعنی جرمنی کی کرسچن ڈیموکریٹ یا برطانیہ کی ٹوری پارٹی سے تشبیہ دے کر چوک جاتے ہیں، کہ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی مربیً تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس) کے پاس ہے، جو بلاشبہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے، جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔

گو کہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ثقافتی تنظیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ ہنگامی صورت حا ل میں ان کی تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں 20 لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں ) کو اکٹھا کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے۔ فوج کو لام بندی اور تیاری میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں۔ وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے، کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔

معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں شائع 500 صفحات پر مشتمل ضخیم تصنیف The RSS: A Menace to India میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ گو کہ بی جے پی کے لیڈران روز مرہ کے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لئے انکوآرایس ایس سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقتور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس کاہی نمائندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے۔

کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس میں شامل ہونے اور پوزیشن حاصل کرنے کے لئے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بن کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑا دیاتھا۔ اس لیے آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ کنواروں پر مشتمل ہے۔ آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو شاکھا کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبہ میں کئی شاکھائیں ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کی پارکوں میں یہ شاکھائیں ڈرل کے ساتھ ساتھ لاٹھی، جوڈو، کراٹے اور یوگا کی مشق کا اہتمام کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔

ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ کو سرسنگھ چالک کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لئے چار راشٹریہ سہکرواہ یعنی متعمد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس کے چھ تنظیمی ڈھانچے ہیں۔ جن میں کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک جو کسی علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے کا غیر شادی شدہ یا خانگی مصرفیات سے آزاد ہونا لازم ہوتا ہے۔

بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیر اعظم مودی اور صدر امیت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔ اس کے باوجود آر ایس ایس نے اپنے دو سینئر پرانت پراچارک رام مادھو اور رام لال کوبی جے پی میں بطور جنرل سیکرٹری تعینات کیا ہوا ہے، تاکہ پل پل کی خبر موصول ہو۔ نورانی کے بقول اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر ٹکی ہے۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجائے اس نے 1951 ء میں جن سنگھ اور پھر 1980 ء میں بی جے پی تشکیل دی۔

بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ 2005 ء میں کراچی میں اسنے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا۔ مصنف کی دلیل ہے کہ جو افراد بی جے پی کو یورپ کی قدامت پسند جماعتوں کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اس پارٹی کی تاریخ اور تنظیم سے واقف نہیں ہیں۔

ان کے لئے عرض ہے۔ ”تنظیم کی فلاسفی اور بنیاد ہی فرقہ وارانہ خطوط پر ٹکی ہے۔ “ آر ایس ایس کی تقریباً 100 سے زائد شاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لئے (دیگر الفاظ میں غنڈہ گردی کے لئے ) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لئے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانشوروں کے لئے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی راہنمائی کے لئے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔

حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لئے مختص کیا ہے۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ ان سبھی تنظیموں کے لئے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لئے سکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علموں کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ آج کے دن اس کی کل شاخوں کی تعداد کم وبیش 84877 ہے گزشتہ برس 20 سے 35 سال کے ایک لاکھ افراد تنظیم میں شامل ہوئے۔

ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میں یہ تنظیمیں پھیل چکی ہیں۔ آر ایس ایس نے گزشتہ برس 113421 افراد کی تربیت کی ہے۔ جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندووٗں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔ بھارت سے باہر ان کی کل 39 ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔ بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاخوں کی تعداد 146 ہے۔

برطانیہ میں 84 شاخیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاخوں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ ’یوگنڈا‘ موریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندووٗں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لئے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔

بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لئے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرونک شاخ ہے جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پر آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو ہیں، جو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، او ر وزیر اعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں۔

آر ایس ایس کے ایک چوٹی کے لیڈر سے مکالمہ کرتے ہوئے ایک بار میں نے پوچھا کہ مسلمان، جو بھارت کے مکین ہیں، کے بار ے میں ا نکی کیا رائے ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں۔ میں نے پوچھا کہ ہندو جذبات سے ان کی کیا مراد ہے؟ توان کا کہنا تھا۔ ”کہ ہندو کم و بیش 32 کروڑدیو ی دیوتاؤں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے لئے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبرؐ اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں۔

مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ ہی اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں“ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، کہ دیگر مذاہب یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ؤں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا۔ غالباً گجرات فسادات کے بعد 2002 ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اْس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر فتر ناگ پور چلا گیا۔

جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانشور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس کو قائل کرنا تھا اور اْن کے سامنے مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔ اس وفد کے ان رکن کے بقول، ”کہ جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندووٗں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟ “ اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا ”کہ ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔

آپ لوگ (مسلمان) کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجئے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔ “ اسلام ہی حق ہے ’کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے او یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ مگر آرایس ایس علماؤ دانشوروں پر مبنی اْس وفد کواس بات پر قائل نہیں کراسکی کیونکہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے تھے اور یہ جانتے تھے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ان کے ایمان کا کیا حشر ہوجائے گا۔
بشکریہ روزنامہ ۹۲۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).