پاکپتن کا محمد فیاض اور خواب


جب آپ زندگی میں کچھ کرنا چاہیں اور کر نہ سکیں یا اپنے خواب کی تکمیل کے لیے آپ کے پاس وسائل نہ ہوں تو وقتی طور پر آپ کے خواب پس پشت چلے جاتے ہیں۔ لیکن وہ خواب آپ کے دل و دماغ سے محو نہیں ہو سکتے اور زندگی میں جب بھی آپ کو موقع ملتا ہے آپ ان خوابوں کو پورا کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اور جب آپ ایسا کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو آپ کو ارادوں کی تکمیل سے کسی کے لیے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ اور معدودے چند شاید کسی بھی معاشرے میں تین سے چار فیصد ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو آنکھ کھولتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں اُسے پورا کرنے کی ٹھان بھی لیتے ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں ورنہ ہم میں سے اکثریت دو جمع دو چار کرنے میں لگی رہتی ہے اور اپنے خوابوں کو گروی رکھ کے اسی پہ اکتفا کر لیتی ہے کہ کیسے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا ہے اور جب روٹی کا بندوبست ہو جائے تو دیگر ضروریات زندگی سر اُٹھا لیتی ہیں۔ اس لیے چند سرپھرے لوگ ہر معاشرے میں اہم ہوتے ہیں جو کچھ کر گزرنے کی نہ صرف ہمت رکھتے ہیں بلکہ وسائل کا ہونا یا نہ ہونا اُن کے لیے برابر ہو جاتا ہے۔

پاکپتن کا محمد فیاض بھی ہم میں سے اکثریت کے برعکس جو خواب دیکھتا رہا اُن خوابوں کو اُس نے کبھی ختم نہیں ہونے دیا اور اپنے دل و دماغ میں ایک واضح مقام اپنے خوابوں کے لیے مختص کر دیا۔ اُس نے یہ نہیں سوچا کہ وہ پاپ کارن بیچتا ہے تو اپنی آنکھوں میں بڑے خواب کیوں سجائے۔ اس کے دل نے اُسے یہ راہ بھی نہیں سجھائی کے بھئی تم تو ٹھہرئے چوکیدار، تمہارا کام چوکیداری کرنا ہے تم کیا کرو گے بڑے خواب دیکھ کے۔ اُس نے اپنے خوابوں کو اپنا تاج بنا لیا اور محدود وسائل کے باوجود ضد پہ اڑا رہا۔

آپ تصور کیجیے، ہمارے معاشرے میں ایک ایک انچ زمین کے لیے قتل ہوجاتے ہیں۔ روز ہم اخبارات میں دیکھتے، پڑھتے، سُنتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کو ایک مرلہ زمین کے لیے مار دیا۔ فلاں نے کچھ فٹ راستے کے لیے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لیکن یہ ایسا سر پھرا تھا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاپ کارن بیچنے اور چوکیدار ہونے سے اس کی زندگی میں انقلابی تبدیلی نہیں آ سکی اور اس کی چار کنال زمین یقیناً اس کے مستقبل کے لیے اہم ہو جائے گی، اس نے اپنے مستقبل کا سوچنے کے بجائے اپنے خواب کو ترجیح دی اور یہ چار کنال زمین اپنا واحد اثاثہ بیچ ڈالا اور تمام جمع پونجی اپنے خواب میں لگا دی۔

زندگی میں دوست اچھے مل جائیں تو آپ خوش قسمت تصور ہوتے ہیں۔ اور ایسے لوگ انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں جنہیں مخلص دوست مل جاتے ہیں۔ محمد فیاض اس معاملے میں تھوڑا خوش قسمت ٹھہرا، زمین بیچنے کے بعد کچھ احباب نے اس کی مالی مدد کر دی، شاید دوستوں میں بھی کچھ ایسے ہوں گے جو خوابوں کی نگری کے مسافر رہ چکے ہوں گے اور خواب کی تکمیل کی قدر جانتے ہوں گے۔ محمد فیاض نے زمین بیچی، قرض کا سہارا لیا اور ایک چھوٹا جہاز بنا لیا۔

آپ اندازہ لگائیے کہ خالصتاً تکنیکی معاملات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ان پڑھ شخص نے چھوٹا جہاز بنا لیا۔ (محمد فیاض انڈر میٹرک ہے اور پاکستان میں ایسے لوگ بھی تعلیم یافتہ افراد کے ضمرے میں شمار ہوتے ہیں جو اپنا نام لکھ لیتے ہیں یا دستخط کر لیتے ہیں ) محمد فیاض نے فیصل آباد سے استعمال شدہ انجن، استمال شدہ بیٹریاں اور دیگر سامان خریدا اور جہاز کی تیار میں جت گیا اور کامیاب بھی ہو گیا۔ پولیس کے قابو میں آنے سے پہلے تک وہ نہ صرف جہاز کو اُڑا چکا تھا بلکہ شنید ہے کہ کرتب بھی دکھا چکا تھا۔

جہاز چلانے کے لیے مطلوبہ مہارت یقینی طور پر اہم ہے۔ مطلوبہ قابلیت کا ہونا بھی کسی بھی طرح سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جہاز کی پرواز کے لیے سول ایوی ایشن کے ساتھ معاملات کی درستگی بھی اس ضمن میں نہایت اہم اور لازمی ہے۔ محمد فیاض کو بنا اجازت جہاز چلانے کے جرم میں دھر لیا گیا۔ گرفتاری کے عمل پہ اختلاف ہو سکتاہے مگر گرفتاری بطور عمل غلط نہیں کہی جا سکتی۔ ڈی پی او کا کہنا کہ جہاز آبادی پہ گرنے سے جانی و مالی نقصان بھی ہو سکتا تھا کہ جہاز میں حفاظتی پہلو نظر انداز کیے گئے تھے، یہ بھی درست۔

لیکن آپ ایک لمحہ خود کو محمد فیاض کی جگہ رکھ کے سوچیے۔ تمام باتیں درست ہیں۔ لیکن آپ اس نوجوان کو داد دیے بنا نہیں رہ سکتے کہ جس ملک میں غریب کو گیس اور بجلی کے بل نہیں اٹھنے نہیں دیتے وہاں اس نے محنت کی کمائی سے جہاز بنا لیا۔ یہ ان پڑھ ضرور ہے لیکن پائلٹ نہ بن سکنے کا دکھ اسے کچوکے یقینی طور پر لگاتا رہا ہو گا تب ہی اس نے سوچا ہو گا کہ کوئی مطلوبہ قابلیت و مہارت نہیں تو کیا ہوا وہ اپنا جہاز خود تیار کر لے گا اور اس نے ایسا کیا بھی۔

پولیس کا محمد فیاض کو گرفتار کرنا غلط نہیں تھا۔ لیکن اس کے بنائے گئے جہاز کی ریخت ہونا یقینی طور پر ہمارے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو کرپشن سے فرصت نہیں تو ایک مزدور اگر اپنے بل بوتے پہ کچھ کر گیا تو کیا پولیس کے کرتا دھرتا اتنے عاقبت نا اندیش ہیں کہ انہوں نے جہاز کو بھی کوئی موٹر سائیکل سمجھا اور لاد کے روانہ ہو گئے۔ آپ محمد فیاض کو قواعد و ضوابط بتائیے، اور اگر اس کی فنی تربیت ضروری ہو تو اس کی فنی تربیت بھی کجیے، اگر مطوبہ تعلیمی قابلیت کا معیار آڑے آئے تو آپ اپنے قوانین، قواعد، ضوابط میں ترمیم کر کے فیاض جیسے قابل لوگوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیجیے۔

لیکن اگر ہمارے مجموعی رویوں کی وجہ سے فیاض جیسے افراد دلبرداشتہ ہو گئے تو بچی کچھی تعمیری سرگرمیاں بھی تخریب کی راہ پہ ہو جائیں گی۔ غربت میں اپنے خواب کی تکمیل کے لیے فیاض ڈاکے یا چوری کی روش اپنا لیتا اور کسی گمنام گولی کا شکار ہو جاتا تو ہم کیسے جانتے کہ اس کا خواب کیا تھا۔ اُس نے مثبت راہ چنی اور محنت کے بل بوتے پہ اپنا نام بنایا۔ آپ بھی اس کی قدر کیجیے۔ اور معاشرے میں چھپے ہوئے اسے گوہر نایاب جتنے بھی سامنے آئیں ان کو مناسب تربیت فراہم کر کے اپنے ملک کا نام روشن کرنے کا ایک موقع فراہم کیجیے۔

محمد فیاض نے جہاز بنایا یا ٹرک اس بات سے قطع نظر اس پورے معاملے میں جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ خوابوں کی تکمیل کے لیے ضروری نہیں منفی رویوں کے ساتھ غلط راستے کا انتخاب کیا جائے بلکہ اپنی محنت کے بل بوتے پہ بھی خوابوں کی تکمیل ممکن ہو سکتی ہے اور یہی ہم کو محمد فیاض کی کہانی سے سبق ملتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).