ملک مزید بیڑہ غرق ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا


نیب کو گزشتہ چند ہفتوں میں ”شریفوں“ کا مکو ٹھپنے کی کارروائیوں میں تین بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی احتساب بیورو جو ناقدین کے مطابق اب ایسے طرزعمل کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے احتساب سے زیادہ انتقام کی بو آتی ہے۔ نیب کے تمام تر پاپڑ بیلنے کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو جو کوٹ لکھپت جیل میں سزا کاٹ رہے تھے علاج کی خاطر چھ ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کر دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق تسلی سے علاج کرا سکیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے دیا۔ جی ہاں! یہ وہی جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جنہوں نے پاناماکیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ ہونے کے ناتے سے نواز شریف کو مافیا ڈان سے تشبیہ دی تھی۔ اس معاملے میں وزیراعظم سمیت حکمران جماعت تحریک انصا ف کا رویہ بھی دلچسپ ہے۔ ایک طرف تو اس کے تر جمان ہر فورم پر رطب اللسان رہتے ہیں کہ ہما را احتساب کے عمل سے کو ئی تعلق نہیں، یہ یکسر آزاد ہے لیکن دوسری طرف یہ رٹ بھی تسلسل سے لگائی جا رہی ہے کہ چور ہیں، خائن ہیں، پکڑلو، بچنے نہ پائیں، زرداری، نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کا مقدر جیل ہے۔

نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے فیصلے پر ان پر ’نہ جا ئے ماندن نہ پائے رفتن‘ کی کیفیت طاری تھی۔ ’پاناما گیٹ‘ کے موقع پر جس عدلیہ کی واہ واہ ہو رہی تھی اب اسی کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ نیب کی دوسری بڑی پسپائی سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی گرفتاری میں ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ جمعہ کو ایسے لگ رہا تھا کہ نیب حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کرنے نہیں بلکہ ان کی اقامت گاہ کو فتح کرنے آئی تھی۔

پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ احتساب بیورو کے اہلکار سیڑھیاں لے کر آئے تھے تاکہ گھر میں گھس کر پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو پکڑا جا سکے۔ حمزہ کا استدلال تھا کہ انہیں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق گرفتار کرنے سے دس روز پہلے بتانا ضروری ہے۔ اس محاذ آرائی کے دوران مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے نیب اہلکاروں کو زدوکو ب کرنے کی بھی کوشش کی، بہرحال پہلے روز پسپائی کے بعد اگلے روز ہفتے کو نیب دوبارہ براجمان ہو گئی۔

اس بار حمزہ کو چیف جسٹس لاہور ہا ئیکورٹ سے پیر تک عبوری ضمانت مل گئی جس روز جسٹس شہزاد احمد ملک کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 17 اپریل تک ان کی ضمانت منظور کرلی۔ جب حمزہ شہباز نیب عدالت میں پیش ہو رہے ہیں تو انھیں زبردستی گرفتار کرنا چہ معنی دارد؟ ویسے بھی نیب کی دسترس سے کسی بھی سیاستدان کا بچنا بکرے کی ماں کب تک خیرمنائے گی کے مترادف ہے۔ قریباً ہر ملزم پر ایک ہی کیس بنایا جا رہا ہے کہ اس کے اثاثے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں۔

ایک کیس میں ناکامی کے بعد دوسرا کیس بنا دیا جاتا ہے۔ نیب کی تیسری پسپائی قائد حزب اختلاف میاں شہبازشر یف کا نام ای سی ایل سے ہٹایا جانا ہے۔ پیپلزپا رٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور منی لانڈرنگ کے کیسز میں ضمانت پر ہی گزارا کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کے کئی پہلو ہیں۔ اس امر کے باوجود کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نیب بالکل آزاد ہے، سیاسی حلقوں میں غلط یا صحیح طور پر یہ تاثر جا گزین ہو چکا ہے کہ سب کچھ حکمرانوں کی ہدایت پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی انجینئرنگ کے لیے ہو رہا ہے۔

 ایک تاثر یہ ہے کہ آصف زرداری اینڈ کو پر عرصہ حیا ت تنگ کرنے کے ساتھ سا تھ شہباز شریف کے بارے میں رویہ نسبتا ً نرم رکھا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس بات پر سخت سیخ پا تھے کہ نواز شریف کی کیونکر ضمانت ہو گئی لیکن نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں حکومت یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ خدانخواستہ میاں نواز شر یف کی صحت مزید دگرگوں ہو گئی تو ذمہ داری حکومت پر ڈال دی جائے گی۔

 بلاول بھٹو کے ’کاروان بھٹو‘ ٹر ین ما رچ اور اس دوران شعلہ نوا تقریریں جن میں انھوں نے حکومت کے علاوہ بلا واسطہ طور پر مقتدر حلقوں کو بھی رگڑا لگایا۔ عمران خان اندرون سندھ جی ڈی اے کے سا تھ مل کر پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں دراڑیں ڈالنے کی کو شش کر رہے ہیں اور شہری سندھ میں ایم کیو ایم کے انہی رہنماؤں جنہیں وہ پہلے دہشت گرد قرار دیتے تھے لیکن وہ اب ڈرائی کلین ہو کر راتوں رات محب وطن بن گئے ہیں۔ وہ اب ان کی کابینہ کا حصہ ہیں اور ان کے سا تھ مل کر اگلے انتخابات کے انتخابی میدان میں اترنے کاعندیہ دے رہے ہیں۔

اس پس منظر میں آصف زرداری اور بلا ول بھٹو کو للکارا بھی جا رہا ہے کہ آ ؤ ’ہمت ہے تو تحریک چلاؤ۔ وزیر اطلاعا ت فواد چودھری پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ کارڈ استعمال کر نے کے امکان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں تحریک انصاف کے نادان مشیر ملکی سالمیت سے کھلواڑ کرنے والے ایسے نعروں کو تقویت دے رہے ہیں۔ تاحال پیپلز پارٹی کے سٹیج سے تو سندھ کارڈ کی کو ئی دھمکی نہیں دی گئی۔ جیسا کہ ہمارے سیا سی کلچر میں ہر بات اور اقدام کے پس منظر میں سازش ہونے کی بو سونگھ لی جاتی ہے۔

 اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حمزہ شہبازپر تازہ یلغار دراصل شہباز شریف کے گرد بلاواسطہ گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق چونکہ شہباز شریف روز اول سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے اور بڑے بھائی کے سامنے بھی ہاتھ جوڑتے رہے کہ حضور والا! فوجی قیادت سے پنگا مت لیں، بعد از خرابی بسیار بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی برادر خورد کے موقف کے قائل ہو گئے، انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے لیکن میاں شہباز شریف کو بھی تحریک انصاف سیاسی طور پر اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے کیونکہ میاں نوازشریف کے سیاسی طور پر راستے سے ہٹ جانے اور عمران خان کو ڈس کریڈٹ کرنے کے بعد انھیں آگے لایا جا سکتا ہے۔

اسی قسم کی بوالعجبیوں کی بنا پر نیب کو آزاد اور خو دمختار نہیں سمجھا جاتا اور تاثر یہ ہے کہ اس کی طنابیں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔ اس پس منظر میں اکانومی جو وزیر خزانہ اسد عمر کی شیخی کے باوجود کہ معیشت انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے نکل کر جنرل وارڈ میں آ گئی ہے اور اب ستے خیراں ہیں عملی طور پر انتہائی مخدوش ہے اور ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے کہہ رہے ہیں کہ اگلے دو برس تک معیشت مزید خراب ہوگی، پیداوار کم اور مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا، عالمی بینک نے بھی حال ہی میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ سے بھی زیادہ معیشت کی گھمبیر ترین صورتحال پیش کر دی ہے۔ اس صورتحال میں حکمرانوں کو کرپشن کرپشن کی رٹ لگانے سے زیادہ اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں اور ملک کا مزید بیڑہ غرق ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).