مشال خان کی برسی جسے معاشرے نے مارا


مشال خان اپنی فیس بک وال پر لکھتا ہے۔

”لکیریں بہت عجیب ہوتی ہیں، کھال پہ کھینچ جائیں تو خون نکال دیتی ہیں اور زمین پہ کھینچ جائیں تو سرحدیں بنا دیتی ہیں۔ “

ہمارے ہاں یہ بات عام تھی کہ سانپ پیڑ پر چڑھ کر چڑیوں کے بچے کھا جایا کرتا ہے اور مادہ سانپ کے بارے مشہور تھا کہ مادہ سانپ انڈوں سے بچے نکلنے کے فوراً بعد اپنے بچوں کے اردگرد ایک دائرہ کھینچ دیتی ہے جو بچہ اس دائرہ سے باہر نکلتا ہے اسے کھا جاتی ہے اور باقی سب محفوظ۔ سانپ بارے ان قصوں کہانیوں میں کتنی صداقت واللہ علم، کیونکہ جب سے انسان سماج کے وجود کا سراغ ملتا ہے تب سے قصوں اور کہانیوں کے وجود کا پتہ چلتا ہے۔

اس طرح انسان نے ماحول کی صورت میں ایک دائرہ کھینچ لیا ہے اور جو انسان اس دائرہ سے باہر کے بارے سوچتا ہے تو اسے یہ معاشرہ نوچ لیتا ہے اس لیے انسان کے لئے اپنے اردگرد کے ماحول کی دائرہ سے باہر سوچنا محال بنا دیا ہے۔

کھینچ کر خود اپنی مرضی کی لکیر

اور پھر اس پر چلا ہے آدمی

17 اپریل 2017 مشال خان کا آخری دن تھا۔ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ایک مشتعل ہجوم جس کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا، ہر ایک کی آنکھوں میں خون اترا آیا تھا اور سب ایک مردہ جسم پر پے درپے وار کر رہے تھے، سب آوازیں لگا رہے تھے کہ یہ گستاخ ہے۔ فیس بک پر مذہب کے حلاف بات کر رہا تھا اس لیے دولت ایمانی کے جذبے میں آکر اس کا کام تمام کر دیا۔

ایف آئی اے نے مشال خان کا لیپ ٹاپ اور سیل فون تحویل میں لے کر فورنزک لیب پہنچا دیے گئے اور تین دن بعد ایف آئی اے نے ابتدائی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ مشال خان کی فیس بک وال، میسنجر، واٹسایپ اور ای میل اکاؤنٹس سے کوئی نفرت انگیز اور قابل نفرت مواد برآمد نہیں ہو سکا ہے۔

کوئی یہاں نہ جان سکا اس کے درد کو

اندر جلا وہ آدمی باہر دھواں نہ تھا

نوجوان اگر کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں تو تعلیم اس کی روح رواں ہے وہ تعلیم جو تخلیقات پر، نئی نئی ایجادات پر اور سب سے بڑھ کر تخلیقی تنقیدی شعور پر اکساتی ہے جو انسان کو تعمیر و ترقی کی جانب گامزن کرتی ہے۔ ایسی تعلیم جو صلاحیتوں کو تعمیری کاموں میں لگا لے۔ دنیا بھر کے ہر تعلیمی ادارے میں تحقیق، ریسرچ، سوال اٹھانا، مقالے لکھنا، مذہب، فلسفہ اور سائنس بارے کھول کر گفتگو کرنا ان سب کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن اگر ہم اس انداز فکر کو سامنے رکھ کر اپنے تعلیمی اداروں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں بہت حد تک مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارا تعلیمی نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ یہاں ہمارے ہاں تنقیدی شعور، آزاد سوچ، مکالمے، مباحثے اور مختلف مسائل پر بے فکری سے گفتگو کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس کا نقصان مشال خان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

مشال خان روشنی کا شہزادہ تھا۔ اس کی سوچ کو روشنیوں کے سہارے دیکھنا تھا اور سوچ کی اندھیروں کو اس کی سوچ سے روشن کرنا تھا۔ یہ سچ ہے کہ آزاد سوچ میں مشکل دلدل ہوتے ہیں، خاردار راستے ہوتے ہیں مگر آزاد تصورات کے پیر نہیں، پر ہوتے ہیں۔ اڑتے ہیں اور اڑانوں پر کوئی قید اور کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ ایسی سوچ امر ہو گی، لافانی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).