میری نوٹ بک میں دفن ہزارہ کہانیاں


میں نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر تازہ حملے کے بعد ٹی وی نہیں دیکھا لیکن شنید یہی ہے کہ شام کو ہونے والے ٹاک شوز میں کسی نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث نہیں کی۔ کوئی چیتا اینکر جہاز پکڑ کر ہزار گنجی نہیں پہنچا اور شہیدوں کے ورثا کے سامنے مائیکروفون رکھ کر نہیں پوچھا کہ آپ عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

ہم صحافی اس مسئلے پر بات کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ ہم دو بنیادی سوال نہیں پوچھ سکتے۔ اگر کیوں پوچھیں گے تو ملک میں فرقہ واریت پھیلنے کا خطرہ ہے اور اگر پوچھیں گے کہ کون مار رہا ہے تو ملکی سلامتی پر ضرب لگے گی کیونکہ جتنی سکیورٹی کسی برادری کو دی جا سکتی ہے وہ ہزارہ برادری کو دی جا چکی ہے۔

سبزی فروشوں کے ساتھ تو ایف سی چلتی ہے۔ چیک پوسٹوں پر جو جوان ہیں وہ تمام وردی نہیں بلکہ جنگی وردی پہن کر کھڑے ہیں اور کیا کریں؟

سپہ سالار سے لے کر وزیراعظم تک کہہ چکے ہیں کہ ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں، آئندہ نہیں ہوںگی تو ہزارہ بھائیو یہ دھرنا اٹھاؤ، وہ جو خوبصورت جھنڈوں والا اور شہدا کی تصویروں والا قبرستان بنایا ہے اس میں کچھ اور قبریں کھودو، اپنے پیاروں کی بخشش کی دعا کرو اور ہماری جان بھی بخش دو۔

عسکری اور سیاسی قیادت کی طرح اس صحافی سے بھی ماضی میں کئی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان کے ثبوت درجنوں نوٹ بُکس میں موجود ہیں۔ ہر سال دو سال بعد کہیں نہ کہیں سے کوئی ہزارہ آ جاتا ہے کبھی کوئٹہ میں، کبھی کراچی میں، انڈونیشیا کے گاؤں گاؤں میں، نیویارک میں اور اپنی کہانی سناتا ہے۔ میں ان کے کہے ہوئے چند جملے نوٹ بک میں لکھ لیتا ہوں کبھی کوئی نیوز رپورٹ بن جاتی ہے مگر اکثر یہ باتیں نوٹ بک میں رہ جاتی ہیں۔

میں بھی ان کہانیوں کی بھیانک یکسانیت سے اتنا ہی بیزار ہوں جتنا میری صحافی برادری۔ لیکن اگر میگا کرپشن اور اسلامی صدارتی نظام کی بحث سے ذرا فرصت ملے تو میری نوٹ بک میں گم ہو جانے والی کچھ ہزارہ آوازیں سن لیں۔

ابو پتہ نہیں کتنے سالوں سے دکان پر نہیں گئے۔

کوئٹہ میں جب سکول میں پڑھتے تھے تو کوئی کلاس فیلو سالگرہ پر نہیں بلاتا تھا شاید ڈرتے تھے یا اس لیے نہیں بلاتے تھے کیونکہ انھیں پتا تھا ہم تو جا ہی نہیں سکتے۔

اس بیچارے کی ساری فیملی ماری گئی۔ مطلب ساری کی ساری؟ جی بیوی اور چار بچے سب کے سب۔

سنوکر کلب پر حملہ ہوا تھا نا اس میں میرے سارے دوست مارے گئے۔ میرے گھر میں اس دن بیماری تھی تو میں اس دن نہیں گیا ورنہ روز جاتا تھا۔ میں نے انگلینڈ سے اپنی سٹک منگوائی تھی وہ بھی دھماکے میں گئی۔

وائس چانسلر صاحب نے کہا گھر بیٹھو، تنخواہ ملتی رہے گی۔ یونیورسٹی آؤ گے تو تمہاری جان کو بھی خطرہ اور تمہاری وجہ سے ہماری جان کو بھی۔

کورکمانڈر صاحب کا گھر میری گلی میں ہے، میری سلام دعا بھی ہے۔ پیچھے پہاڑی سے کسی نےمیزائل مارا، ساتھ والے گھر پر لگا بچت ہوگئی۔ میرا خیال تھا شاید نشانہ کورکمانڈر صاحب کا گھر ہوگا لیکن ان سے بات ہوئی وہ کہہ رہے تھے میرا خیال ہے میزائل میرے گھر پر مارا گیا تھا۔

بسوں والے ہزارہ لوگوں سے کرایہ زیادہ مانگتے ہیں۔ کہتے ہیں تمہاری وجہ سے دوسرے مسافروں کی زندگیاں رسک پر ہیں۔

حملہ آور موٹر سائیکل پر تھے، ہم نے پیچھا کیا تو وہ کینٹ کی طرف بھاگے اور کینٹ کے گیٹ سے اندر چلے گئے۔ کینٹ والوں نے ہمیں روک لیا۔ ہم نے اپنا سپیشل برانچ کا کارڈ دکھایا اور بتایا کہ حملہ آور اندر گئے ہیں انھوں نے کہا، اب تو تم نے کہہ دیا، آئندہ یہ بات کبھی نہ کرنا اور بھاگ جاؤ پھر تمھاری شکل کبھی نظر نہیں آنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).