جب تک دوا ملی، بیٹا دنیا چھوڑ چکا تھا


اس دن مصروفیت بہت تھی۔ ایک تو میڈیکل بورڈ تھے پندرہ بیس ہوں گے۔ میں چیر مین میڈیکل بورڈ تھا۔ ایک سرجن صاحب نشتر سے تشریف لائے تھے اور دو قیدی عدالتی حکم پر میڈیکل بورڈ سے معائنے کے لئے لائے گئے تھے۔ ہسپتال میں مریضوں کی سفارش کے لئے کوئی آئے نہ آئے، میڈیکل بورڈ کے لئے سفارشیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ اسی لئے میرے دفتر کے باہر خاصا رش لگا ہوا تھا اور گیٹ کیپر دروازہ بند کیے ہوئے تھا۔ میں ان دنوں ایک ڈسٹرکٹ ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھا۔

اچانک دروازہ زور سے بجایا گیا۔ اس طرح کی بدتمیزی کا مطلب یہ ہو سکتا تھا کہ کوئی انہونی موت ہوئی ہے یا کسی وجہ سے ہسپتال میں کوئی ہنگامہ ہو گیا ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ کوئی ایم این اے یا ایم پی اے آیا ہو کسی میڈیکولیگل کیس کی سفارش کے لئے۔ بہر حال کسی بھی صورت میں دفتر کا دروازہ بند کرکے بیٹھنا کوئی مناسب اقدام نہیں ہوتا۔ اور بعض اوقات اس کا شدید ردِّ عمل برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن میڈیکل بورڈ کروانے کے لئے چونکہ پولیس افسر بھی آئے ہوتے ہیں اس لئے کسی ہنگامی حالت سے نمٹنا آسان بھی ہو جاتا ہے۔

دروازہ کھلا تو خلاف توقع ایک مزدور ٹائیپ بوڑھا پریشانی اور اضطراب کی ملی جلی کیفئیت کے ساتھ گھبرایا گھبرایا اندر آنے کی کوشش کرتا نظر آیا۔ اسے دیکھتے ہی چپڑاسی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ”بابا جی! میں نے آپ کو بتایا نہیں کہ ڈاکٹر صاحب مصروف ہیں۔ آج کسی سے نہیں مل سکتے“۔ میں نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے اور اس کی پریشانی بھانپتے ہوئے اندر بلا لیا۔ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے باہر کھڑا میرے چپڑاسی کی منت کیے جا رہا تھا اور اس کی شنوائی نہ ہو پا رہی تھی۔

اس کا اکلوتا بیٹا شدید بیمار تھا اور ایمرجنسی میں تھا۔ ڈاکٹر نے اس کو دوا کا نسخہ تو لکھ دیا تھا جس کی زیادہ تر دوائیاں ہسپتال میں موجود نہیں تھیں۔ بازار سے خریدنے کی اس کی سکت نہیں تھی۔ اس کو عملے کے کسی آدمی نے گائیڈ کیا تھا کہ ایم ایس کے پاس چلے جاؤ اس کے پاس لوکل پرچیز کا بجٹ ہوتا ہے۔ وہ آپ کو دوا لے کر دے سکتا ہے۔ اسی آس پر وہ پچھلے گھنٹے سے میرے دفتر کے باہر کھڑا تھا اور مجبور ہو کر اب اس نے دروازہ بجایا تھا۔

ہسپتال میں دوائیوں کی تقسیم کا بھی وہی طریق کار ہے جو پورے ملک میں وسائل کی تقسیم کا ہے۔ اچھے اور اے کلاس وسائل اشرافیہ لے جاتی ہے غریب بیچارہ سستے جمعہ اور اتوار بازاروں میں ذلیل ہوتا رہتا ہے۔ لوکل پرچیز کی دوا بھی ایسے ہی تقسیم ہوتی ہے۔ اصل میں تو لوکل پرچیز اس لئے ہوتی ہے کہ اگر کوئی دوا ہسپتال میں موجود نہ ہو اور ضروری ہو تو مریض کو بازار سے خرید کر دی جائے۔ لیکن اشرافیہ یعنی ضلعی انتظامیہ، عوامی نمائندے اور بڑے جرنلسٹ ڈاکٹرز پر پریشر ڈال کر اپنی مرضی کی مہنگی دوا لکھواتے ہیں اور ایم ایس ان کو لوکل پرچیز کروا دیتا ہے۔ عام مریض کو یہ سہولت کم ہی میسر ہوتی ہے۔

میں نے اس کو لوکل پرچیز کے آرڈر کردیے اور چپڑاسی کو کہا کہ اس مریض کو دوالینے کا طریق کار سمجھا دے۔ تاکہ اس کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ میں چپڑاسی کو یہ ہدایت دے کر میڈیکل بورڈز میں مصروف ہو گیا۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد ایمر جنسی سے ایک فون کال نے مجھے ایمرجنسی کا دورہ کرنے پر مجبور کردیا۔ ایک مریض کی ڈیتھ ہو گئی تھی اور مرنے والے کا باپ ڈیڈ باڈی وصول کرنے سے انکاری تھا۔ میں ایمرجنسی میں پہنچا تو یہ وہی شخص تھا جو دو گھنٹے قبل میرے دفتر آیا تھا۔

مجھے دیکھ کر وہ روتا ہوا میرے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں دوائیوں کا شاپر تھا۔ اس نے زاروقطار روتے ہوئے مجھے کہا ”سر! یہ دوائیاں واپس رکھ لیں۔ میرے بیٹے کو ان دواوں کی ضرورت نہیں رہی۔ دراصل ایک گھنٹہ تو وہ میرے دفتر کے باہر کھڑا رہا تھا۔ پھر وہ فارماسسٹ کے پاس گیا جس نے لوکل پرچیز کے لئے این اے سرٹیفکیٹ (یہ دوا ہسپتال میں موجود نہ ہے ) دینا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ پرچیز افسر کے پاس گیا جس نے اسے باہر سے دوا خرید کردی۔

اس دوا کو استعمال سے پہلے لوکل پرچیز کے سٹاک رجسٹر میں درج کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یوں وہ بیچارہ ایک افسر سے دوسرے افسر کے دفتروں کے چکر کاٹتا رہا۔ وہ سرکاری دوا تو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کا بیٹا جان کنی کے عالم میں دوا کا انتظار کرتے کرتے اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اس کے پاس میت کو گھر لے کر جانے کے لئے گاڑی کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ وہ سٹاف کی منت سماجت کر رہا تھا کہ اسے اپنے بیٹے کی میّت کے لئے ایمبولینس دی جائے۔

ہسپتال کی ایمبولینس کا قانون یہ ہے کہ صرف مریض کو ایمرجنسی کی صورت میں نشتر یا میو ہسپتال منتقل کرنے کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے۔ محکمانہ رول کے تحت ڈیڈ باڈی گھر شفٹ کرنے کے لئے ہسپتال کی ایمبولینس استعمال نہیں کی جاسکتی۔ میں نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایمبولینس ڈرائیور کو میت گھر چھوڑنے کا حکم دیا تو وہ کچھ سکون میں آیا۔ اس دن کے بعد سے میں نے اپنے دفتر کا دروازہ سائلین کے لئے بند کرنے سے توبہ کرلی اور چپڑاسی کو کسی بھی سائل کو دروازے پر روکنے سے سختی سے منع کر دیا۔ اللہ مجھے معاف فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).