بنی گالہ کی روحانی قوتوں کا کمال اور کپتان کی مُردوں سے ملاقاتیں


جو لوگ کپتان کی پوشیدہ، خوابیدہ اور پراسرارطاقتوں اور روحانی ترفع و بالیدگی کے اعلٰی ترین درجوں سے بوجہ بغض و بخل انکار کرتے تھے، شہریار آفریدی کا حالیہ چشم کشا بیان ان کے منہ بلکہ فٹے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ ابھی تو معترضین اور حاسدین کا یہ رونا دھونا ہی ختم نہیں ہوا تھا کہ کپتان کی پہنچ براہ راست رجال غیب اور روحانی زور پر ملک کو چلانے والوں کے درباروں تک ہے، شہر یار آفریدی کے بیان نے کپتان کی مکاں سے لامکاں تک بلند پروازی کا سربستہ راز بھی طشت از بام کردیا ہے۔ اقبال کی فکر بھی یہاں آکر کپتان کے پیکر خاکی میں مجسم ہوئی۔ کپتان کی روح میں بجا طور پر پرواز لولاکی و جستِ آفاقی پیدا ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دو سال قبل انتقال کرنے والے ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی سے ٹیلی فون پر تفصیلی تبادلہ خیال کر لیا۔

عشق کی ایک ہی جست نے طے کردیا قصہ تمام

اس زمیں آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

کپتان کی مردوں سے ملاقاتوں کے ایمان افروز و روح پرور احوال کے بارے میں تو ہم زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ البتہ ایک مرتبہ انہوں نے سندھ کے عوام کو اپنی روایتی دشنام طرازی و طعنہ بازی کا نشانہ بناتے ہوئے زندہ لاشیں کہا تھا۔ اس وقت وہ ان لاشوں کے ذکر سے کنی کترا گئے تھے جو سر زمین پنجاب سے سندھیوں کے لیے بھیجی گئی تھیں۔ کپتان صاحب کے اسی روحانی کرشمہ سازی اور باطنی بصیرت افروزی کو دیکھتے ہوئے شاید ہمارے ابو الاثر نے چلتے پھرتے ہوئے مردوں سے ملاقاتوں جیسے واقعات کو زندگی کے کشف و کرامات سے تعبیر کیا تھا۔

مردوں کے سننے یا نہ سننے اور حاضر و غائب ہونے کے حوالے سے تو اب تک بڑی زور دار اور متاثر کن بحثیں چل رہی ہیں۔ ایسے ہی ایک متجسس اور مضطرب مریدِ ہندی نے شعلہ بیان و آتش بجاں خطیب مولانا عطا اللہ شاہ بخاری سے پوچھ لیا کہ مولانا!کیا مردے سنتے ہیں؟ مولانا کی افلاک کے علاوہ فرنگیوں سے بھی حریفانہ کشا کش چل رہی تھی۔ اس لیے آزردہ و افسردہ بیٹھے تھے۔ حسرت و تاسف بھرے لہجے میں فرمایا کہ بھئی!سنتے ہوں گے جن کی سنتے ہوں گے۔ ہماری تو کوئی زندہ نہیں سنتا۔

 تصوف کے میدان میں تیز ی سے روحانیت، طریقت اور سلوک کی منزلیں طے کرنے والے پی ٹی آئی کے سالک کے بارے میں کچھ نکتہ چیں چیں بہ جبیں ہو کر اعتراض جڑتے ہیں کہ یہ لوگ کسی سستے نشے کے زیر اثر پچاس لاکھ گھروں، اربوں نوکریوں، سمندر ی تیل کے خزانوں، کٹوں، مرغیوں، بھینسوں اور انڈوں کے بل بوتے پر قوم کی تقدیر بدلنے کے دعوے کر کے سلطنت شغلیہ کے کھلنڈرے درباریوں کے طرزعمل کا نمونہ پیش کر رہے ہیں اور عالم بے خودی و سرخوشی میں ایک ہی جست میں آسمانوں تک کی خبریں لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ان پرلے درجے کے احمقوں اور خود سر دنیاداروں کو کیا خبر کہ ہمارے ایک درویش شاعر جناب ساغر صدیقی بہت پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ

محبت کے مزاروں تک چلیں گے

ذرا پی لیں ستاروں تک چلیں گے

کپتان کے بارے میں ان کے ایک مرید خاص کا دعوٰی کچھ اتنا بھی مضحکہ خیز نہیں کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ کپتان کے قبضے میں پاکستان کے چند انتہائی اہم غیر مرئی اور مافوق الفطرت عناصر ہیں۔ جب سے پاک پتن والی سرکار نے اپنے فیوض و برکات اور معرفت و بصیرت کے جلووں کی بارش شروع کر رکھی ہے کپتان کے تو وارے ہی نیارے ہو گئے ہیں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ الیکشن کی معرکہ آرائی میں عینی شاہدین کے مطابق غیبی طاقتوں اور نادیدہ مخلوق نے کپتان کے امیدواروں کے صندوق ووٹوں سے بھر دیے تھے۔ کپتان کی اس تاریخی کامیابی کو تائید ایزدی اور امداد غیبی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے! ہم نے خود بے شمار پولنگ سٹیشنوں میں سبز پوشوں اور نورانی مخلوق کو کپتان کے صندوقوں میں دھڑا دھڑا ووٹ ڈالتے دیکھا۔ جادو ٹونے، تعویذ گنڈے اور سحر کاری پر یقین کرنے والے اس ضرب کاری کو بھلے جادو کی چھڑی کا کمال کہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ سب رجالِ غیب اور روحانی قوتوں کا کمال ہے۔

عالمِ بالا کا ذکر چھڑا تو کپتان کے حوالے سے یہ دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ بھی سن لیں کہ ایک مرتبہ عالم بالا کی سیر کے دوران کپتان کا دل چاہا کہ وہ ذرا کال کر کے اپنے نئے پاکستان کے پاکستانیوں کا احوال معلوم کر یں۔ داروغہ نگران بھی تھا اور ٹیلی فون کالز کے پیسے بھی چارج کر رہا تھا۔ کپتان کے سامنے بہت سے یورپی، مغربی اور امریکی رفتگان بھی اپنے اپنے ممالک میں کالز کر کے اپنے ہم وطنوں سے خیر خیریت پوچھ رہے تھے۔ ان تمام مغربی و یورپی ملکوں کے سربراہوں کو مختصر کالوں کے بھاری بل ادا کرنا پڑ رہے تھے۔ کپتان نے کئی گھنٹے یہاں پاکستان میں ہر طرح کی مخلوق سے تفصیلی بات چیت کی۔ بل کی باری آئی تو کل دو روپے بل آیا۔ یہ دیکھ کر مغربی و یورپی سربراہان بہت سٹپٹائے اور اس کھلے تضاد پر اعتراض کرنے لگے۔ اس پر داروغہ نے انہیں معاملے کی حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ آپ کا اعتراض اس لیے جائز نہیں کہ دوزخ سے دوزخ لوکل کال پڑتی ہے۔

آخر میں کپتان صاحب کو یہ مسکت اور صائب مشورہ دیں گے کہ وہ ایک ٹیلی فون عالم بالا میں اپنے ممدوح فیلڈ مارشل جنرل ایوب کو بھی کھڑائیں اور جنرل صاحب سے اسلامی صدارتی نظام کے اجرا کا طریق کار اور اس کے فیوض و برکارت کے بارے میں بھی پوچھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).