اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ؟


پاکستان اور اسرائیل کے درمیاں عجیب و غریب قسم کے ایسے مضبوط خیالی رشتے اور معاملات ہیں جو کسی اور ممالک کے درمیاں نہیں ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو تسلیم بھی نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے وجود پر باقی ممالک سے زیادہ کڑی نظر بھی رکھتے ہیں اور اک دوسرے کے ہر معاملے پر خبردار بھی رہتے ہیں۔

اس بات میں کون شک کرسکتا ہے کہ پاکستان میں ملک بننے سے لے کر اب تک یہ خیال نہایت پختہ ہے کہ ”پاکستان کو کمزور کرنے میں سب سے زیادہ کردار اسرائیل کا ہے۔“ مگر اللہ پاک کا احسان ہے کہ پاکستان ہر دس سال بعد اور زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوتا جا رہا ہے، جو ملک یہ سمجھتا ہو کہ آدھی عرب دنیا صرف ان کے دم سے خود کو محفوظ سمجھتی ہے وہ خود کیسے غیر محفوظ ہوسکتا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان اک نہایت طاقتور اور محفوظ ترین ملک ہے، اور یہاں نجم سیٹھی صاحب کی چڑیا کے سوا ”کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی“۔

اس بات پر گذشتہ آدھی صدی سے بحث چل رہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ دنیا میں قومی یا جمہوری ریاستیں بننے کے بعد اب ریاستوں کے مراسم اور سفارتکاری کے معاملات کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب پسند ناپسند کی جگہ فائدہ اور نقصان، جبکہ نظریات اور مذاہب کی جگہ بین الاقوامی اسٹریٹیجک معاملات اور لابنگ نے کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے، اس بات کا انکشاف تو ڈاکٹر صغریٰ صدف صاحبہ کر چکی ہیں کے ”میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں کن دلائل اور وجوہات کے باعث اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا جواز باقی رہ گیا ہے۔ اگر اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے پس منظر میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کو جواز بنایا جائے تو فلسطینی ہم سے زیادہ ہندوستان کو اپنا حمایتی سمجھتے ہیں۔ کئی بار ہندوستان کے ساتھ یکجہتی کے سلسلے میں وہ (فلسطینی) اپنا سفیر تک پاکستان سے واپس بلا چکے ہیں۔ “

اس سے دلچسپ بات یہ کہ پاکستانی اور اسرائیلی ریاستوں، حکومتوں اور عوام کا مزاج اور معاملات اس قدر آپس میں ملتے ہیں کہ شاید ہی کسی اور ممالک یا عوام کے ملتے ہوں۔ دونوں ممالک دوسری عالمی جنگ کے بعد پیدا ہونے والے معروضی حالات کے نتیجے میں قائم ہوئے۔ دونوں کو برطانیہ سے آزادی ملی یا دلوائی گئی اور مذہب کی بنیاد پر ریاست اور آئین کو قائم کیا یا کروایا گیا۔ دونوں قوموں نے اپنے تاریخی علاقے پر نوزائیدہ ریاست کی بنیاد رکھی، اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اس دھرتی سے دربدر کیا جبکہ دوسرے علاقوں سے اپنے ہم مذہب لوگوں کو ہجرت کر کے خود اپنے پاس بلایا اور اب مہاجریں وہاں نہ صرف سیاسی طاقت بن چکے ہیں بلکہ ان پر حاکم بھی بن چکے ہیں۔ ”دوسری طرف یہودیوں کی جانب سے فلسطینی عوام سے زیادہ تر زمیں مرلے اور کنال کے حساب سے خریدنے اورطاقت حاصل کرنے کے بعد کافی رقبے پر قبضہ کر کے اپنے ریاست کو وسعت دینا ہم سب کے سامنے ہے۔

اسرائیل میں سیاسی طور پر اقتدار کا زیادہ حصہ آرمی کے پاس تو نہیں لیکن اسرائیل نے بھی چھپ چھپ کے خود کو ایٹمی طاقت بنا لیا ہے، اس وقت اسرائیل کے پاس کئی ایٹم بم موجود ہیں اور پاکستان کی طرح یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کو دنیا میں ایٹمی طاقت تسلیم کیا جائے۔

سرکاری قوانین کے مطابق جس طرح کوئی مسلم یا غیر مسلم پاکستانی اسرائیل نہیں جا سکتا ویسے ہی کسی یہودی یا مسلمان اسرائیلی کو بھی پاکستان آنے کی اجازت نہیں، دوسری طرف دونوں ممالک کی حکومتوں کے نمائندے کئی بار غیر سرکاری طور پر آپس میں مل بھی چکے ہیں، بس جو نہیں مل سکتے وہ عوام ہیں۔

اک رائے ہے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے تو پاکستان سب سے پہلے بھارت کو انتقامی صحرا میں بھٹکنے کے لئے اکیلا چھوڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف چین ہمارے ساتھ ”ہمالیہ سے اونچی دوستی“ کا فائدہ لے کر سی پیک کے راستے خود اسرائیل کے ساتھ تجارتی حجم کو بڑھا سکتا ہے تو پاکستان بھی اس موقع سے فائدہ لے سکتا ہے۔ باقی نظریاتی اختلافات تو چین، جنوبی کوریا اور بھارت سے بھی تھے اور ہیں، اسرائیل سے بھی رہیں گے، پھر کیا ہوا۔

اس سے پہلے ڈاکٹر صغریٰ صدف نے دو الہامی کتب رکھنے والی امتوں کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لکھا تھا کہ ”ہوسکتا ہے اسرائیل میں بہت برائیاں ہوں، اُس سے ہمارے نظریاتی، سیاسی اور دیگر اختلافات موجود ہیں مگر کیا باقی پوری دنیا دودھ کی دُھلی ہے۔ کیا اُن سے ہماری سو فیصد نظریاتی ہم آہنگی ہے جنہیں ہم نے منظور کر رکھا ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ میں اُس مقدس سرزمین کی زیارت کرنا چاہتی ہوں جسے کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام جیسے عظیم اور جلیل القدر انبیاءکے قدموں کا لمس نصیب ہوا تھا۔

میں اُن ہواؤں میں سانس لینا چاہتی ہوں جس میں ابھی تک روحانی سرشاری برقرار ہے، میں اس منظر کا حصہ بن کر تصور میں تاریخ کو حرکت کرتے محسوس کرنا چاہتی ہوں جس میں جادوئی کشش ہے اور میں دیوارِ گریہ کے پاس بیٹھ کر کھُل کر رونا چاہتی ہوں۔ اُس سرزمیں پر اپنے اشک نچھاور کر کے نیکی اور خیر کے بیجوں کو سر اٹھانے کی درخواست کرنا چاہتی ہوں۔ آخر مجھے اجازت کیوں نہیں کہ میں اُن انبیاء کے مزاروں پر جا سکوں جن کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور جن کی نسبت میرے نبی ﷺ سے بھی ہے؟ ”

اب ہمیں مذہبی بنیادوں کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی، تجارتی، دفاعی، اقتصادی، سفارتی، سماجی اور تاریخی طور پر اسرائیل کی ساتھ دو۔ طرفہ معاملات اور روابط کو دیکھنا چاہیے۔

مگر کیا یہ ممکن ہے؟

جواب آتا ہے، بالکل، نہ صرف ممکن ہے مگر بہت آسان بھی ہے، یہ کام تو برطانیہ میں بیٹھے میرپور کے کشمیری مسلمان لندن اور برمنگھم میں بیٹھ کر اور اسرائیل کے شہر رملہ میں بیٹھے سندھ کے یہودی سندھی بھی آرام سے کرسکتے ہیں باقی اور مدد کے طور پر کراچی کے ان بلوچ قمبرانی شیدیوں سے بھی بات کی جاسکتی ہے جو آدہی صدی سے کراچی میں یہودیوں کے تاریخی قبرستان کو نسل در نسل سنبھال رہے ہیں۔

مگر کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟

اس کا سنجیدہ جواب آتا ہے ”ایسا ہو نہیں سکتا، بالکل نہیں، کشمیریوں اور سندھیوں کا ملک کی خارجہ پالیسیوں میں کیا کام۔“ دوسری طرف نہ صرف پاکستان مگر اسرائیل میں بھی ایسے نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے عوام کو پاکستان یا پاکستانی عوام کے قریب آنے دیں، کیونکہ کہ اسرائیل کی نظریاتی بنیاد دراصل ”فلاحی جمہوری ریاست“ کے طور پر نہیں رکھی گئی، وہاں اصل حکمران طبقہ اگر پڑوسیوں اور خیالی دشمنوں سے تمام دشمنیاں ختم کردے تو خود اس کے صرف مذہبی بنیادوں پر باقی رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہتا۔ ویسے ان کے ہاں اخلاقیات نامی کوئی چیز وجود تو نہیں رکھتی مگر پھر بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).