زخمی گال،خستہ حال ارباب اور ارباب اختیار!


ارباب کے گال تھپڑوں اور گھونسوں سے لال کرنے والا لعلوں کے لعل کا بھی کمال کا جاہ و جلال ہے۔ سیاست دانوں، مدرسے کے کمزور مولویوں، بے بس و مظلوم اساتذہ اور دہاڑی دار ٹھیلے والوں اور ریڑھی بانوں، بمشکل جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے والے ڈھابوں اور چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں اپنی ”مسلح“ ٹیم لے کر کیمروں سمیت پاتال تک اترنے والے حق و انصاف کے علمبردار اور طاقتور کے خلاف کلمہء حق بلند کرنے کے دعویدار الیکٹرانک میڈیا کے ہر حریت فکر اور حرف و صوت کے پیمبر چینل پر میں بڑی دیر تک ریموٹ ہاتھ میں لیے اس خبر کی جستجو میں رہا کہ ارباب پر ڈھائے جانے والے ظلم کے باب میں کوئی تو خبر ملے۔

میری آنکھیں منتظر ہی رہیں کہ وہ خوددار، بہادر اور جواں ہمت اینکرز جنہوں نے شریف فیملی کے خلاف کرپشن کے خود ساختہ اور من گھڑت واقعات کی تشہیر میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تھے، کہیں کسی چینل پر نمودار ہو کر انتہائی کرب انگیز اور گلو گیر انداز میں ارباب پر گزرنے والی قیامت کی ہوش ربا داستان سنا کر، معصوم ارباب اور ان تمام طلبہ کی نفسیات پر مرتب ہونے والے دور رس اور خطرناک اثرات کا ذکر کریں گے جن کے سامنے میجر صاحب اور ان کی اہلیہ نے بہادری کا یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔

سپائڈر مین کی طرح ہر ”جرم“ کے گڑھ میں سرفروشانہ انداز سے گھسنے والا اقرارالحسن بھی آج مہر بلب اور جاں بلب تھا۔ نواز و زرداری فیملی کے ”جرائم“ کے خلاف دور کی کوڑی لانے والا صابر شاکر بھی اس واقعے سے آنکھیں پھیر کر صبر و رضا کی تصویر بن گیا تھا۔ نواز شریف کے خلاف نیب کے لیے مخبری کر کے ناقابل تردید ثبوت اکٹھے کرنے والا ارشد شریف بھی آج شرافت و نجابت کا پیکر بن کر اچھا بچہ بن گیا تھا۔ جاتی امرا اور بلاول ہاؤس کو تمام تر آلائشوں اور ضلالتوں کا منبع و مرکز گرداننے والے حسن نثار کا تکلم و ترنم بھی آج شرمسار و بے اعتبار تھا۔

کھرا سچ بولنے والے مبشر لقمان کا سچ بھی سود و زیاں کی کشمکش میں لڑکھڑا رہا تھا۔ قلم کو کمان بنانے والے، حرف راز کے محرم اور سچائی کے ناتمام سفر کے راہی بھی آج خاموش تھے۔ تجاہل عارفانہ کا مجرمانہ سفر جاری تھا۔ دیکھنے والے اندھے، سننے والے بہرے، بولنے والے گونگے، ضمیر کی ہانک لگانے والے مطمئن و مسرور، عدل و انصاف کے داعی بے حس، شعور و آگہی کا شور کرنے والے بے پروا اور ہر ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کے سر جھکے، آنکھیں شرمندہ اور دل بے مہر ہو چکے تھے۔ بے اعتنائی کے اس بے مہر اور قہر زدہ موسم کے ہنگام صرف سوشل میڈیا کے سر پھرے اور بد دماغ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے تھے۔

ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا سبق دینے والے آج ہمارے لالوں کے گال لال کریں گے تو ہم بولیں گے۔ دشمن کی پناہ گاہوں میں بے خطر گھسنے والے جب درسگاہوں اور شفا خانوں میں گھس کر ہماری شازیاؤں اور ارباب کی زندگیوں کو عذاب بنا دیں گے تو ہم بولیں گے۔ کیپٹن سرور شہید، عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید اور لالک جان شہید کے شاہین صفت وارث جب دشمن کے جنگی جہازوں پر حملہ آور ہوں گے تو ہم ان کی راہ میں دیدہ و دل فرش راہ کریں گے۔ مگر جب انہیں شہدا کے امین کاروبار سیاست میں دخل دے کر پورے ملک کو یرغمال بنا دیں گے تو ہم حرف شکایت لبوں پر ضرور لائیں گے۔

میجر صاحب! ملک نے یہ خاکی وردی آپ کو اس لیے نہیں دی ہے کہ آپ کی دھونس جما کر درسگاہوں میں گھس کر ہمارے نونہالوں کو زد و کوب کریں۔ یہ وردی بہت مقدس، عظیم، حرمت وآبرو والی ہے۔ اسے پہننے والا تو رزم حق و باطل میں فولاد کی مانند اور حلقہء یاراں میں بریشم کی طرح نرم ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی بہادر اور جاں فروش آرمی پر فخر ہے۔ اس کا وجود مسعود مملکت خداداد کی یکجائی اور یگانگت کی علامت ہے۔ اس پر حرف گیری اور طعنہ بازی ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ مگر آج بد قسمتی سے اسی مملکت میں جگہ جگہ دلخراش و جگر پاش نعرے لگ رہے ہیں۔ جناب سپہ سالار! یہ نعرے تو اس وقت بھی نہیں لگے تھے جب ہمارا ایک ٹائیگر آدھا ملک دشمن کی جھولی میں ڈال آیا تھا۔

کہتے ہیں کہ فوج میں احتساب کا نظام بہت بڑا اور کڑا ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں مگر کیا کریں جب آرٹیکل 6 کے مجرم کو عدالتوں کا سامنا کرنے کے بجائے دبئی میں رنگین محفلوں میں محوِ رقص و سرود دیکھتا ہوں تو آپ کے کڑے احتساب کو وقتی مصلحتوں کے سامنے مجبور پاتا ہوں۔ جناب! سپہ سالار! مشرف کا احتساب نہ کریں کہ وہ تو خود ہی تاریخ کے کوڑا دان میں گل سڑ رہا ہے مگر کیا ارباب کے باب میں بھی کسی سے جواب نہیں مانگیں گے؟

ہم یہ گستاخانہ اور جاہلانہ مطالبہ ہر گز نہیں کر رہے ہیں کہ باوردی میجر صاحب کو بھی اسی سکول میں ٹھیک اسی جگہ، انہیں طلبہ و سٹاف کے سامنے مظلوم ارباب کے ننھے منے ہاتھوں سے طمانچے مروائیں مگر کم ازکم ان سے اتنا تو پوچھیے کہ انہوں نے پاک فوج کی مقدس و حرمت والی وردی کی سر عام توہین و تذلیل کیوں کی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).