میں نے اپنی روح نکلتی دیکھی!


صبح نماز کا الارم بجا تو حسب معمول اٹھ کر الارم بند کرنے اور وضو کر کے نماز پڑھنے کہ لئے اپنی آنکھیں کھولنے اور ساتھ لیٹے اپنے شوہر کو ہلانے کے لئے ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ یوں لگا جیسے نیند میں ہوں۔ پھر سے اپنی پوری طاقت لگا کر اٹھنے کی کوشش کی مگر نہیں ہل سکی۔ ایک خیال سے مجھے زور کا جھٹکا لگا کہ کہیں میں کوما میں تو نہیں چلی گئی۔ دماغ کام کر رہا ہے لیکن جیسم ساکن ہو چکا ہے۔ اٹھنے کی دو تیںن بار کوشش کی مگر تھک ہارکر اس امید پر لیٹ گئی کہ میں اٹھ کر الارم بند نہیں کرو گی تو الارم کی آواز سے زاہد صاحب اٹھ جائیں گئے اور پھر وہ مجھے اٹھا دیں گے۔ چنانچہ زاہد صاحب نے اٹھ کر الارم بند کیا اور وضو کرنے چلے گئے۔ میں لیٹی بول رہی ہوں کہ مجھے بھی اٹھائیں مگر انہوں نے میری بات کو یوں نظر انداز کیا جیسے انہوں نے سنا ہی نہ ہو۔ وضو کرکے آئے اور مجھے آواز دی ثمرین اٹھ جاؤ ورنہ نماز کا ٹائم ختم ہو جائے گا اور اپنی نماز شروع کردی۔ میں پھر آوازیں دیتی رہ گئی لیکن انہوں نے مجھے پھر سے نظر انداز کر دیا۔ اب میں ان کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔

نماز ختم کر کے جائے نماز پر بیٹھے بولے کہ لگتا ہے کل زیادہ تھک گئی تھی جو اٹھ نہیں رہی۔ سیم اٹھو نماز نہیں پڑھنی آج؟ ٹائم ختم ہو گیا تو پھر اٹھ کر کہو گئی میری نماز قضا کروا دی۔ میں اٹھ رہی ہوں لیکن میرے سے اٹھا نہیں جا رہا’ میں یہ بولی جا رہی ہوں لیکن زاہد صاحب کو مسلسل میری آواز نہیں آ رہی تھی اور ان کی ساری باتیں مجھے سن رہی تھیں۔ انہوں نے مجھے دو تین دفعہ اونچی آواز میں اٹھنے کا کہا مگر میرے نہ اٹھنے پر وہ حیرانگی کی کیفیت میں میری طرف بڑھے۔ مجھے اٹھانے کی کوشش کی۔ میرے نہ اٹھنے پر تیسری بار انہوں نے مجھے زور سے جھنجھوڑا۔ میں پھر بھی حرکت نہیں کر پائی۔ میں آنکھیں کھولے بغیر ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھی کہ اب ان کے چہرے پر کھو دینے کا خوف تھا، پریشانی صاف عیاں تھی۔ مجھے زور سے ہلایا’ میں نہیں ہلی تو جلدی سے اپنے فون کی طرف لپکے۔ نمبر ملاتے ہوئے جلدی اٹھاؤ جلدی اٹھاؤ بول رہے تھے۔ ہیلو محمود جلدی گاڑی نکالو ثمرین کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ فون بند کیا اور مجھے اپنے دونوں بازو میں اٹھاتے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگے۔ مجھے اس وقت یاد آْیا کہ ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ کم کھایا کرو موٹی ہوتی جارہی ہو اگر کسی دن مجھے اٹھا کر نیچے اترنا پڑا تو میں کیا کروں گا؟ لیکن اب جب وہ مجھے اپنے بازووں میں اٹھائے نیچے اترے تو پتہ نہیں ان میں کہا سے اتنی طاقت آ گئی کہ پلک جھپکتے سولہ سیڑھیاں اتر بھی آئے۔

نیچے مکمل سناٹا تھا۔امی امی۔۔۔۔امی جو نماز پڑھ رہی تھی’ فورا سلام پھیر کر ننگے پاؤں بھاگی چلی آئی۔ کیا ہوا؟ امی ثمرین کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ امی رونے لگی۔ محمود بھاگا آیا اور گاڑی نکالنے لگا۔ امی بھی جوتا پہنے آ رہی تھی۔ آتے ہوئے جائے نماز پر بیٹھے ابو کو کہتی کہ ثمرین کو ڈاکٹر پر لے کر جا رہے ہیں اسے پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔ زاہد صاحب نے مجھے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بڑی مشکل سے لٹایا اور میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ میں نے فورا کہا کہ زاہد صاحب کسی سے کہیں کہ محمد حسن اور محمد حسین کے پاس کمرے میں چلا جائے کہیں وہ اٹھ گئے تو روئیں گے۔مگر کوئی میری بات نہیں سن پا رہا تھا۔

ہسپتال کا راستہ اتنی تیزی سے طے ہوا کہ ہر سگنل توڑ کر گاڑی بھگاتے چلے گئے۔ ابھی گاڑی صحیح سے رکی بھی نہیں تھی کہ زاہد صاحب مجھے اٹھا کر جلدی سے سٹیچر کی طرف بھاگے۔ سٹیچر پر مجھے لٹا کر تیزی سے ایمرجنسی روم کی طرف بھاگے۔ آدھا اندر داخل ہوتے ہی ڈاکٹر، ڈاکٹر ایمرجنسی ۔ دو ڈاکٹر اور ایک نرس جلدی سے بھاگے چلے آئے۔ دیکھیں انہیں کیا ہوا ہے’ جلدی دیکھیں۔ آپ باہر رکیں ہم چیک کرتے ہیں۔ نہیں، نہیں ثمرین کو اکیلے ڈر لگتا ہے’میں باہر نہیں جاؤں گا ۔ ڈاکٹروں نے وقت ضائع کئے بغیر ان کی ضد پر انہیں اندر آنے دیا۔ اسی اثنا میں دو ڈاکٹر اور آ گئے۔ انہوں نے نبض چیک کی اور نرس سے کہا کہ جلدی سے یہ انجکشن لگائیں’ بی پی چیک کریں، ای سی جی کریں۔ دس مینٹ کی مسلسل کوشش کے بعد ڈاکٹر ہار گئے۔ دل کی دھڑکن صفر پر آگئی۔ ”آئی ایم سوری ہم کچھ نہیں کر سکتے”۔ ایک ڈاکٹر نے زاہد صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ یہ سنتے ہی زاہد صاحب بےہوش ہو کر فرش پر گر گئے۔

سارے ڈاکٹر میرے گرد سے ہٹے اور ان کی طرف بھاگے۔ پانی پانی۔ ڈاکڑ کی زور سے آواز آئی تو ایک لڑکا پانی لے کر بھاگا آیا۔ میں نے اٹھ کرانہیں سنبھالنے کی کوشش کی مگر اٹھنے میں نا کام ہو گئی۔ اب مجھے یقین ہوا کہ میں مر گئی ہوں۔ اب میں کبھی نہیں اٹھ سکوں گی۔ کچھ دیر اپنے پیاروں کو دیکھ تو سکوں گی مگر نہ ان سے کوئی بات کر سکوں گی اور نہ ان کی کسی بات کا جواب دے سکوں گی۔ پانی کے چھینٹے مارنے سے زاہد صاحب کو ہوش آیا تو پاس کھڑی امی کے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگے۔ خود کو سنبھالتے یا امی کو۔ ثمرین اٹھ جاؤ’ ثمرین اٹھو پلیز۔ مجھے ہلا ہلا کر مسلسل اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے’ مگر بے سود۔ ڈاکٹروں نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنا کر جانے کے لئے کہا۔ ایمبولینس آ گئی۔

اتنے میں نیم بے ہوشی کی سی حالت میں بیٹھے زاھد صاحب نے محمود سے کہا کہ گھر فون کر کے بتا دینا تھا۔ اس نے روتے ہوئے کہا کہ بتا دیا۔ ایک دم سے زاہد صاحب زور سے چیخے حسن، حسین اور زور سے ہچکیوں کے ساتھ رونے لگے۔ امی اور بھائی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے انہیں دلاسہ دینے لگے۔ مجھے ایمبولینس میں لٹایا اور خود بھی ساتھ میں بیٹھ گئے۔ دس منٹ کا سفر صدیوں جتنا لگ رہا تھا۔ ہسپتال سے گھر تک کا سفر بہت دفعہ طے کیا تھا۔ جب بھی بیمار ہوتی تو جاتے وقت بہت تکلیف اور پریشانی میں ہوتی لیکن واپسی پر زاہد صاحب کی باتوں سے میرا موڈ خوشگوار ہو جاتا۔ آج واپسی پر کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔

جسم سے روح کیا نکلی’ اپنے بھی پرائے لگنے لگے۔ سوچوں میں گم مسلسل رو رہے تھے۔ میں انہیں چپ کروانا اور ان سے ان گنت باتیں کرنا چاہتی تھی۔ زندگی کے آخری لمحے کی باتیں، کچھ وصیتیں، کچھ نصیحتیں’ لیکن زندگی سانس کی محتاج ہے۔ سانس رکی روح نکلی اب اگلا سفر اکیلے کرنا ہے۔ اپنے اعمالوں کے ساتھ۔

ایمولینس رکی دروازہ کھلا اور دو لوگ سٹیچر کو اٹھانے لگے تو زاہد صاحب نے ایک طرف سے تھام لیا۔ گھر کے گیراج کے درمیان میں ایک چارپائی رکھی تھی۔ مجھے اس پر لٹا کر سٹیچر خالی کر دی گئی۔ جس گھر کو سناٹے میں ابھی تھوڑی دیر پہلے چھوڑ کر گئی تھی۔ اب وہاں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ گھر والے، رشتہ دار اور محلے والے بھی موجود تھے۔ میری آنکھیں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں جو مجھے نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ میرے بیٹے تھے’ جنہیں میں آواز دیتی تھی محمد حسن’ محمد حسین تو وہ بھاگے چلے آتے تھے۔ اب ان تک میری آواز بھی نہیں پہنچ رہی تھی۔ کسی رشتہ دار کی آواز آئی ادھر آؤ یہ دیکھو تمہارے بابا آ گئے۔ زاہد صاحب جو چار پائی کے پاس بیٹھے تھے مڑ کر دیکھا تو حسن اور حسین سہمے ہوئے کھڑے تھے۔ زاہد صاحب کو دیکھ کر اونچی اونچی آواز میں رونے لگے۔

حسین’میرا چھوٹا شہزادہ کہہ رہا تھا کہ بابا، بابا سب کہہ رہے کہ ماما اب نہیں آئیں گی؟ ماما کہا ہیں؟ ماما تو رات کو میرے ساتھ سوئی تھی’ اب صبح، صبح کہاں چلی گئی؟ حسن گھڑی پر ٹائم دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ بابا سات بج گئے ہیں۔ ماما سے کہو کہ میرا لنچ بنا دو۔ سکول میں مجھے بھوک لگی تو میں کیا کھاؤں گا۔ زاہد صاحب اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے دونوں بچوں کو اپنے بازووں میں لے کر انہیں دلاسہ دینے لگے ۔ان کے پاس بچوں کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ماما سو رہی ہے’ ماما کو پاری کر لو۔ میرے منہ سے کپڑا ہٹایا تو بچے اور شدت سے رونے لگے۔ ماما، ماما،ماما۔ دونوں بچے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ ماما اٹھو ہم نے سکول جانا ہے’ ہم لیٹ ہو جائیں گے۔ میرا دل کیا کہ اٹھ کر بچوں کو گود میں لے لوں مگر اب میں بے بس ہو چکی تھی۔ چاہ کر بھی انہیں اپنے سینے سے نہیں لگا سکتی تھی۔

آہستہ آہستہ وقت گزر رہا تھا۔ دوست اور رشتے دار جمع ہو رہے تھے۔ مسجد سے اعلان کی آواز آئی فلاں بنت فلاں قضائے الٰہی سے وفات پا گئی ہیں اور ان کا نماز جنازہ ظہر کے وقت ہوگا۔ اعلان سن کر اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ آج مسجد میں میرے نام کا اعلان ہو رہا ہے۔ جب کسی اور کی نماز جنازہ کا اعلان سنتے تو دل میں خیال آتا کہ ابھی تو ہم جوان ہیں’ جب بوڑھے ہوں گئے تو موت آئے گئی۔ آج پتہ لگا کہ موت کوئی جوان بوڑھا نہیں دیکھتی ۔

اب لوگوں میں سرگوشیاں ہونے لگی۔ کوئی جنازے کا ٹائم پوچھ رہا ہے تو کوئی نہلانے اور کفن کی باتیں کر رہا ہے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ چند ہی منٹوں میں لوگ میرا نام بھول گئے۔ مجھے میت کہنے لگے۔ مجھے دفنانے کی باتیں کرنے لگے۔ آیا یہ مجھے چند دن بھی نہیں برداشت کر سکتے۔ جب میں زندہ تھی تو اس گھر کے کام اور اس کے لوگ مجھے کہیں جانے نہیں دیتے تھے۔ میری کمی کو محسوس کرتے تھے۔ اب جب میں بے کار ہو گئی ہوں’ کچھ کر نہیں سکتی تو مجھے جلدی دفنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ٹائم آن پہنچا کہ مجھے نہلا کر سفید کپڑے پہنا کر تیار کر دیا گیا۔ اس ان دیکھی منزل کے لئے جس میں خوف بھی ہے اور خوش خبری بھی۔ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا میں اس سے بے خبر تھی۔

آخر مجھے رخصت کرنے کا وقت آ ہی گیا۔ امی نے مجھے آیت الکرسی پڑھ کر اللہ کے حوالے کیا۔ کندھا دینے کے لئے میرے محرم تھے میرے لئے یہ خوشی کی بات تھی۔ ایک پایہ میرے شوہر نے تھاما اور مسلسل تھامے رکھا۔ جس طرح ازواجی زندگی میں کسی مشکل لمحے پر انہوں نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا’ اسی طرح آج آخری سفر پر بھی انہوں نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جنازہ پڑھانے کی باری آئی تو میرے شوہر نے خود پڑھانے کا کہا۔ جتنے دل سے وہ میرے لئے دعا مانگ سکتے تھے’ کوئی قاری صاحب نہیں مانگ سکتے تھے۔ جنازہ پڑھنے والوں میں میرے دونوں بچے اول صف پر کھڑے تھے اور غمگین آواز میں آمین کہہ رہے تھے جو میرے لئے نجات کا باعث بن رہے تھے۔ میرے اپنوں نے مجھے قبر میں اتارا اور اب مٹی ڈال رہے تھے۔ دو ننھے ننھے ہاتھوں کی مٹی مجھے پھولوں جیسی راحت دے رہی تھی۔

اب مجھے اپنے نامہ اعمال کی شدت سے فکر ہونے لگی کہ اس میں کیا ہو گا؟ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا؟ مجھ سے میرے علم اور اس پر عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ میرے پاس رکھوائی جانے والی امانتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ نماز، روزہ، زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ اب میں خوف سے شدید نڈھال ہو گئی۔ اب وقت کی قدر اور آخرت کی تیاری صحیح نہ کر سکنے پر شرمندہ ہو رہی تھی۔ اب احساس ہو رہا تھا کہ کاش کچھ اور نیکیاں اکھٹی کر سکتی کاش۔ لیکن اب اس کاش کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی۔ بزرگ صحیح کہتے تھے کہ جب تک سانس ہے تب تک چانس ہے۔ اب سانس بھی ختم اور نیکیاں کرنے کا چانس بھی ختم۔ اب سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ تھا۔

مٹی ڈال کر اندھیری قبر میں مجھے اکیلا چھوڑ کر سب واپس جا رہے تھے۔ مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا کسی کو یہ خیال نہ آیا۔ تنہائی اور اپنی بد اعمالیوں کا اس قدر خوف مجھ پر طاری ہوا کہ میں کانپ کر رہ گئی۔ اسی اثنا میں الارم بجنے لگا۔ الارم کی آواز اتنی تیز تھی کہ میری آنکھ کھل گئی۔ یوں لگا جیسے قیامت آ گئی ہے اور سب سوئے ہوؤں کو اٹھایا جا رہا ہے اور مجھے بھی اٹھا دیا گیا ہے۔ جب پوری طرح میں بیدار ہوئی تو اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو دیکھا میں اپنے کمرے میں تھی۔ ہر طرف پر سکون ماحول تھا۔ بچے اور زاہد صاحب سو رہے تھے۔ میں اے سی چلنے کے باوجود پیسنے سے شرابور تھی۔

اسی دوران اذان کی آواز میرے کان میں پڑی تو جلدی سے اٹھ کر وضو کیا او جائے نماز پر کھڑی ہو گئی۔ اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے سدھرنے کا ایک اور موقع دیا ہے۔ زاہد صاحب کو اٹھایا اور انہوں نے بھی نماز پڑھی۔ پھر میں نے سارا واقعہ بتایا۔ زاہد صاحب کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کے لئے دوسری زندگی ہے۔ یہ خواب کے بجائے حقیقت بھی تو ہو سکتا تھا۔ کیونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کر سکتا ہے۔ اب اس دوسرے موقع کر غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلاؤ اور زیادہ نیکیاں اکھٹی کر لو تاکہ پھر پچھتانا نہ پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).