مدارس کے مہتمم، ناظم اور امیر تاعمر عہدے پر کیوں رہتے ہیں؟


مولانا سلمان حسینی ندوی مشہور عالم دین ہیں۔ لکھنؤ میں واقع درسگار دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ایک مدت سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بعض معاملات میں روایتی بیانیہ سے الگ رائے رکھنے کی وجہہ سے تنازعات میں بھی گھرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک خط وائرل ہوا جو مولانا سلمان حسینی کی طرف سے ہے اور ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا رابع حسنی ندوی کو لکھا گیا ہے۔ خط میں مولانا رابع حسنی سے گذارش کی گئی ہے کہ وہ اپنی پیرانہ سالی اور کمزور صحت کو دیکھتے ہوئے ناظم کے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں۔

مولانا رابع حسنی ندوی اپنی عمر کے 90 برس پورے کر چکے ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ پیدا ہونے والے صحت کے مسائل کے سبب ان کی بیرونی سرگرمیاں اور تبلیغی دورے بڑی حد تک محدود ہو چکے ہیں اس لئے پہلی نظر میں مولانا سلمان حسینی کی گذارش میں دم نظر آتا ہے۔ الجھن یہاں ہے کہ مولانا سلمان حسینی نے ناظم کا عہدہ جن کے سپرد کرنے کی گذارش کی ہے وہ عمر میں مولانا رابع حسنی کے لگ بھگ برابر ہی ہیں۔ مولانا سعید الرحمان اعظمی کی عمر 84 برس ہے اور صحت کے اعتبار سے وہ تقریبا اسی کیفیت سے دوچار ہیں جن کا مولانا رابع حسنی کو سامنا ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی اداروں کی سربراہی کے لئے ایسے ہی لوگوں پر کیوں نظر جاتی ہے جو عمر کے اعتبار سے صدی کو چھوا چاہتے ہیں؟ یہ صرف برکت کی چاہت ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور جذبہ کارفرما ہے؟

حال ہی میں جماعت اسلامی ہند کے امیر کے عہدے پر سعادت اللہ حسینی کا انتخاب ہوا۔ سعادت اللہ حسینی نے جن مولانا جلال الدین عمری کی جگہ لی ہے ان کی عمر 84 برس ہے۔ اچھی صحت اور مکمل طور پر سرگرم ہونے کے باوجود مولانا عمری نے مدت کار مکمل کرکے عہدہ اپنے سے تقریبا آدھی عمر کے شخص کو سونپ دیا۔ یہ وہ منظر ہے جسے زیادہ تر ملی تنظیموں اور مدارس میں دیکھنے کے لئے یہ آنکھیں ترس ترس جاتی ہیں۔ بات آ نکلی ہے تو ذرا مدارس کے مہتمم، ناظم اور امیر کے عہدوں پر جلوہ افروز حضرات کی کبھی نہ ختم ہونے والی مدت کار کا فسانہ بھی سن لیجیے۔

مدارس اور کالج والوں کے درمیان مناظرے میں فریقین ان خوبیوں کو بڑھ بڑھ کر گناتے ہیں جو ان کی دانست صرف ان کے یہاں ہیں اور سامنے والے کے یہاں نہیں پائی جاتیں۔ مثال کے طور پر مدارس والے اخلاقی برتری کو اپنی میراث قرار دیتے ہیں تو کالج والے کہتے ہیں کہ ہم ان جدید علوم کے امین ہیں جن کی بنیادوں پر جدید دنیا کھڑی ہے۔ اپنی اپنی مخصوص خوبیوں کو گنواتے وقت مدرسہ والے ایک خوبی یہ بھی بیان کر سکتے ہیں کہ ان کے یہاں شیخ الجامعہ اور امیر جامعہ تواتر سے نہیں بدلتے بلکہ جو ایک بار عہدے پر بیٹھ گیا پھر وفات تک اسی عہدے پر فائز رہا۔

اس مقدمہ کو آسانی سے سمجھنے کے لئے برصغیر کے تین بڑے مدارس کی مثال لے لیجیے۔ دیوبندی مکتب فکر کی مرکزی درسگاہ دارالعلوم دیوبند، سنی مسلک کی ہی ایک اور مشہور درسگار دارالعلوم ندوۃ العلماء اور شیعہ مسلک کے مرکزی مدرسہ جامعہ ناظمیہ لکھنؤ تینوں ہی جگہوں پر امیر، مہتمم اور ناظم کے عہدوں پر جو حضرات فائز ہوئے وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ چلئے دارالعلوم دیوبند سے بات شروع کرتے ہیں۔ اس درسگاہ کے آخر کے پانچ مہتمم صاحبان کی مدت کار پر نظر ڈالئے تو پتہ چلے گا کسی کو کسی عہدے پر کتنا دوام ہو سکتا ہے۔

ان پانچ میں سے تین مہتمم حضرات کے مدت کار کو اگر ملا دیا جائے تو یہ عرصہ 114 برس بیٹھتا ہے۔ جی ہاں، آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا ہے، ایک صدی اور چودہ سال۔ ان تینوں کی مدت کار اس طرح رہی ہے۔ حافظ محمد احمد 1894 میں مہتمم بنے اور 1928 تک یعنی 34 برس اس منصب پر فائز رہے۔ مولانا قاری محمد طیب قاسمی 1929 میں مہتمم بنے اور پورے 52 سال مہتمم رہے۔ مولانا مرغوب الرحمان 1982 میں مہتمم بنے اور 2010 میں اپنی وفات تک یعنی 28 برس مہتمم رہے۔ مولانا مرغوب الرحمان بجنوری کے بعد مولانا غلام محمد وستانوی مہتمم بنائے گئے لیکن اپنے بعض نظریات کی وجہہ سے انہیں طلبہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حالات اتنے بگڑے کہ انہیں عہدے سے ہٹ جانا پڑا۔ ان کے بعد مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی مہتمم بنے اور 9 برس سے وہی اس منصب پر جلوہ افروز ہیں۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مہتمم کے عہدے پر مولانا سعید الرحمان اعظمی فائز ہیں۔ مولانا موصوف اس منصب کو گذشتہ 19 برس سے رونق بخشے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے شروع میں ذکر کیا کہ حال ہی میں ندوۃ العلماء کے ایک سینئر استاذ مولانا سلمان حسینی ندوی نے ناظم کے عہدے پر فائز مولانا رابع حسنی ندوی کو خط لکھ کر گذارش کی ہے کہ وہ عمر اور صحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا عہدہ مولانا سعید الرحمان اعظمی کے سپرد کر دیں۔

مولانا رابع حسنی ندوی بھی کم و بیش 19 برس سے اپنے عہدے پر جلوہ افروز ہیں۔ اس سے پہلے وہ 6 برس تک مہتمم رہے اور پھر 1999 میں نائب ناظم بن گئے۔ اس وقت ناظم کا عہدہ مولانا علی میاں ندوی کے پاس تھا جو اتفاق سے مولانا رابع حسنی کے ماموں بھی تھے۔ مولانا علی میاں کی وفات ہوتے ہی ان کا عہدہ مولانا رابع حسنی کو منتقل ہو گیا اور آج تک انہیں کے پاس ہے۔ مولانا علی میاں ندوی 1954 میں ناظم بنے تھے اور وفات کے دن تک اس منصب پر رہے۔ یہ دور تقریبا 45 برس بیٹھتا ہے۔

شیعہ مکتب فکر کی مشہور درسگار جامعہ ناظمیہ لکھنؤ رہی ہے۔ مدرسہ کے امیر مولانا حمید الحسن ہیں۔ آپ 1969 میں اس کے امیر بنے تھے اور آپ کی مدت کار کو نصف صدی ہو چکی ہے۔ جامعہ ناظمیہ کے تحت مدرسہ ناظمیہ اور ناظمیہ عربی کالج آتے ہیں۔ مولانا موصوف سرکاری قوانین کے مطابق جامعہ کے عربی کالج سیکشن کے پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو اس منصب پر آپ کے صاحبزادے مولانا فرید الحسن آ گئے اور اب تک اسی عہدے پر ہیں۔ مولانا حمید الحسن ابھی بھی مجموعی طور پر پورے جامعہ ناظمیہ کے مسؤل اور امیر ہیں۔

مذکورہ باتوں کی تاویلات کی جا سکتی ہیں لیکن عام مشاہدہ اور ذہانت یہی کہتی ہے کہ تعلیمی درسگاہیں مسلسل متحرک ادارے ہوتے ہیں اس لئے ان میں آدھی آدھی صدی تک مخصوص افراد کا مختار کل بنے رہنا، نظام کے جمود کا سبب بن سکتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں شیخ الجامعہ کی تین یا پانچ برس کی طے مدت کار ہوتی ہے۔ اگر کوئی شیخ الجامعہ بہت ہی غیر معمولی صلاحیتوں والا ہوا تو اسے دوسری مدت کار مل جاتی ہے لیکن یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ ایک ہی وائس چانسلر تاحیات امیر رہے۔ مدت کار کو محدود رکھنے کا مقصد جمود کے اندیشے کو رفع کرنا، انتظامی اور تعلیمی معاملات میں نئے تجربات کرنا، نظام کو تازہ فکر اور نئی قوت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں سونپتے رہنا ہوتا ہے۔ اہل مدارس کو غور کرنا چاہیے کہ ان کے یہاں امیر، ناظم یا مہتمم کے معاملے میں یہی اصول نافذ ہونا چاہیے یا نہیں؟

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter