میٹرک کے امتحانات اور نقل مافیا


میٹرک کا نصاب تبدیل کر دیا گیا مگر امتحانی نظام پر کسی کی نظر نہیں گزری۔ ایک بچہ جو مکمل بلوغت میں بھی نہیں پہنچا خوف سے لرز رہا ہے اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ وہ بچہ پرچے میں دیے گئے ریاضی کے سوالات سے خوفزدہ نہیں ہے اور نہ ہی زندگی کی رفتار سے بلکہ کمرۂ امتحان میں موجود فوجی اہلکاروں کی چال پھیر سے مایوس ہے۔

میٹرک کے امتحانات میں نقل کی روک تھام کے لئے اقدامات کیے گئے ہیں۔ صاحب اگر حکومت نے نقل بازی روکنے کی ذمہ داری فوج، رینجرز یا پولیس کی لگائی ہے تو سرحد پر اساتذہ کو تعینات کیا ہوگا۔ نقل بازی روکنے کے لئے زبردستی کی نہیں بلکہ اچھی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پوری دہائی گزار کر بھی طالب علم کی ایسی تربیت نہیں ہوسکتی کہ اسے صحیح غلط کی تمیز آجائے تو یہ ہمارے تعلیمی نظام کی بہت بڑی ناکامی ہے۔

رواں سال امتحانات کے دوران ”پرچہ آؤٹ“ کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ اب اس ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کی بات کریں یا مثبت اثرات پر نظر دوڑائیں اس کی ارتقاء نے بھی ناک میں دم کررکھا ہے۔ آج میٹرک کا طالب علم اس لئے پریشان نہیں دکھائی دیتا کہ پرچہ کیسا ہوگا بلکہ اس انتظار میں دکھائی دیتا ہے کہ کب واٹس ایپ پر پرچہ اپ لوڈ ہوگا۔ ہمارے یہاں علم کی اہمیت پر تو زور دیا جاتا ہے لیکن امتحان کی فضیلت کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔

”افلاطون نے تعلیم و تربیت کو برابر رکھا اور اپنے شاگرد کو بطور خدمتگار منتخب کیا جو آج ارسطو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ افلاطون نے اپنے شاگرد کو امتحانات سے واقف رکھا اور معّلم ہونے کا فرض پورا کیا اور ارسطو کی علم سیکھنے کی چاہ نے اسے عالم بنایا۔ “ موجودہ دور میں نہ ہی افلاطون جیسے استاد ہیں اور نہ ہی علم کی طلب رکھنے والے ارسطو جیسے شاگرد۔

تعلیمی اور امتحانی نظام میں عدم توجہی کے باعث طالب علموں میں چیٹنگ کا رجحان جنم لیتا ہے۔ ایک درمیانی کاپی کی قیمت چالیس روپے ہے زیادہ تر نجی اسکول اس کاپیوں پر مونوگرام لگا کر ایک سو چالیس روپے کی فروخت کرتے ہیں۔ اب اسکول کی انتظامیہ ہی کرپٹ ہو تو اس اسکول کے اساتذہ کی کون خبر لے اور وہاں کے بچوں کی تربیت کون کرے۔ تبدیلی کا دور ہے اس لئے یہاں انسانی ذہن بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ دسویں کے امتحان میں 2008 کے بعد کثیر الانتخابی سوالات کا ایک حصہ شامل کیا گیا جس سے بچوں میں نقل کا رجحان کم ہوا ایسے ہی امتحانی پرچوں میں ردوبدل کرنے کی ضرورت ہے۔ نقل زور یا زبردستی سے نہیں روکی جاسکتی بلکہ ہمیں طالب علموں کو نو عمری میں ہی تعلیم کے اصولوں سے آگاہ کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).