ہسپتال میں کربلا برپا کرنے والے


لوگ اس قدر ظالم ہیں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد کے سی ڈی اے ہسپتال میں روز رات دس بجے پانی بند کر دیا جاتا ہے۔ سینکڑوں مریض ان کے تیمار دار ہسپتال کے مختلف یونٹ اور وارڈز میں عملی طور پر روز کربلا برپا ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر نرسیں پانی کے لئے بلکتی ہیں۔ ہسپتال کے تمام واش روم اور باتھ روم پانی کی عدم دستیابی سے گندگی کے ایسے ڈھیر میں بدل جاتے ہیں قدم نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد ڈاکٹروں کو باتھ روم جانا ہو وہ رات کے وقت باہر کسی جگہ پر فارغ ہو آتے ہیں۔

لیڈی ڈاکٹر اگر اسلام آباد کی رہائشی ہے وہ اوبر یا کریم سے گھر جاتی ہے یہی حال نرسز کا ہے۔ لیکن جو لیڈی ڈاکٹر یا نرس دور سے آتی ہے یا کوئی خاتون مریض ہے اس کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔ لیڈی ڈاکٹروں اور ڈاکٹروں کا وفد انتظامیہ سے بارہا وفد کی صورت میں ملاقات کر چکا ہے اور رات دس بجے کے بعد پانی کی بندش ختم کرنے کے مطالبات کر چکا ہے لیکن مسئلہ حل نہیں کیا جا رہا۔

یہ مسئلہ اس لئے حل نہیں ہو رہا کہ مبینہ طور پر ہسپتال میں ایک اعلی عہدیدار کے قریبی عزیز کے پاس ایک ٹھیکہ ہے اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر روز اس قریبی عزیز کی دوکان سے پانی کی ہزاروں بوتلیں خریدی جاتی ہیں۔ مریض ہو یا ڈاکٹر، نرسز ہوں یا دیگر طبی عملہ، مریضوں کے تیمار دار ہوں یا کوئی اور وہ یا تو میلوڈی مارکیٹ میں جا کر پانی کی بوتل خریدے گا یا پھر ہسپتال کی فارمیسی سے اور زیادہ تر لوگ ہسپتال سے ہی پانی خریدتے ہیں۔ کیا کوئی اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے کہ ٹشو پیپرز کاٹن رول یا پانی فروخت کرنے کے لئے ہسپتال کا پانی بند کر دے۔

سی ڈی اے ہسپتال میں رات کو کبھی پانی بند نہیں ہوتا تھا۔ سی ڈی اے کے افسران خود مسلسل پانی کی فراہمی ممکن بناتے تھے لیکن ایسی شاندار تبدیلی آئی ہے اور ایسے گھٹیا لوگ اعلی عہدوں پر پہنچ گئے ہیں دل لرز جاتا ہے۔ ہسپتال کے کئی شعبے ایسے ہیں جہاں پانی کی فراہمی ناگزیر ہوتی ہے۔ گردوں کا وارڈ اور گائنی وارڈ اور سچ تو یہ ہے تمام وارڈز میں پانی ہونا چاہے لیکن نہیں ہوتا۔ صبح پانی آتا ہے اور صفائی کا عملہ بھی واش روم اور باتھ روم صاف کرنے کا عمل شروع کرتا ہے۔ رات کو پانی نہیں ہوتا اس لئے واش روم اور باتھ روم بھی صاف نہیں ہوتے۔ ہے کوئی ایسا عہدیدار جو پانی کی بوتلیں زیادہ فروخت ہونے کے اس گندے اور مکروہ عمل کو روکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).