زلیخا کا ناسور


لاڑکانہ تو شہر ہی وزیروں، وزیراعلاؤں اور وزیراعظموں کا تھا اور اس کے ساتھ ہی موہنجوداڑو کا رومانس، ہزاروں سال پرانی تہذیب کے آثار جس کے بارے میں، میں نے بہت کچھ سنا تھا اور پڑھا بھی تھا۔ اسی لاڑکانہ آنے کی دعوت نے مجھے یکایک مسحور سا کرکے رکھ دیا تھا۔

سالوں پہلے ڈاکٹر بننے کے بعد پاکستان چھوڑ کر جب میں لندن آکر آباد ہوا تو پھر پاکستان جانا نہیں ہوسکا تھا۔ واقعات بھی کچھ اس طرح سے ہوتے چلے گئے تھے کہ پاکستان سے تمام رابطے ختم ہوکر رہ گئے تھے۔ میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے تیسرے سال میں ہی تھا کہ میرے والد نے اعلان کردیا کہ میری شادی نجمہ سے ہوگی۔ نجمہ بڑے ابو کی بیٹی تھی، میری ہم عمر ہی تھی مگر مجھے کبھی بھی کسی قسم کی دلچسپی اس سے نہیں رہی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شادی وادی کے بارے میں، میں نے سوچا بھی نہیں تھا میرے والد صاحب کو اپنے بڑے بھائی سے بلا کی عقیدت تھی۔

شاید اس زمانے میں بھائیوں میں ایسا ہی تعلق ہوتا تھا کہ اولاد ان کی خواہش کے آگے سر جھکا دیتی تھی اور ان کا احترام خاندان کی دوسری روایات اور رشتوں سے برتر معلوم ہوتا تھا۔ ایک طویل سرد جنگ کے بعد میں نے جھوٹا وعدہ کرلیا کہ شادی نجمہ سے ہی کروں گا اور پھر ڈاکٹر بننے کے بعد مزید تعلیم کے لئے انگلینڈ روانہ ہوگیا تھا۔

لندن پہلے ہی دن سے میرے دل کو بھاگیا۔ چھوٹے گھر، سردی اور بہت سارے بے حس لوگوں کے باوجود میں لندن کے ہر رنگ کو پسند کرنے لگا تھا۔ میں آیا تو سرجن بننے کے لئے تھا مگر نہ جانے کیا ہوا کہ ہیمراسمتھ اسپتال میں کام کرتے کرتے مجھے عورتوں کے امراض سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عورتوں کے شعبے کا ایک ڈاکٹر نیل کوئن اتنا اچھا تھا کہ میں خود بھی اس سے متاثر ہوگیا اور باتوں باتوں میں ہی اس نے مجھے آمادہ کرلیا کہ سرجری کے بجائے گائنی کا امتحان دے ڈالوں۔ میں نے امتحان بھی دیا اور پاس بھی ہوگیا۔ اس کے بعد سے مجھے نوکریاں ملتی ہی چلی گئی تھیں۔ کوئن شارلیٹ، کنگس کالج اور سینٹ جارجیز اسپتال میں ٹریننگ لیتا ہوا میں بھی گائنا کالوجسٹ بن گیا تھا۔

نجمہ کے خوف اور ابا جان کی ضد سے ڈر کر میں لندن میں ہی ٹکا ہوا تھا اور کنسلٹنٹ کی نوکری تلاش کررہا تھا کہ تھوڑے دنوں میں ہی سرے کے علاقے میں مستقل نوکری مل گئی تھی۔ نوکری کے شروع دنوں میں ہی شیوان سے ملاقات ہوئی تھی۔

زندگی میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے آپ کسی سے ملتے ہیں، کسی کو دیکھتے ہیں اور یکا یک بے وجہ وہ آپ کے وجود کو تسخیر کر لیتا ہے، آپ کے اوپر چھاجاتا ہے اور مکمل طور پر آپ کو مسحور کرلیتا ہے۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ شیوان یکا یک میری زندگی میں بغیر کسی پلاننگ کے آئی تھی اور پہلے ہی دن میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میری زندگی کی باگ ڈور شیوان کے ہاتھ میں ہوگی۔

یہ فیصلہ بڑا مشکل تھا، میرے لئے بھی اور شیوان کے لئے بھی۔ مجھے پتا تھا کہ یہ فیصلہ اس لئے بھی کرنا ضروری تھا کہ جب تک میں کنوارا تھا نجمہ بھی کنواری رہے گی میرے فیصلے کے بعد ہی بڑے ابو اور ابا جان نجمہ کے لئے کوئی رشتہ تلاش کریں گے۔

میرے خط اور فیصلے کا دھماکا خیز جواب آیا تھا۔ مجھے عاق کردیا گیا تھا اور تاکید کی گئی تھی کہ اپنی منحوس شکل کے ساتھ کبھی بھی اپنے والدین کے سامنے نہ آؤں۔ میں ان کے لئے زندہ درگور ہوگیا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے والدین اپنی اکلوتی اولاد کے ساتھ ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ میرا قصور ہی کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صرف اپنی پسند کی شادی۔

وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مجھے خط ملا تھا تو شیوان میرے ساتھ ہی تھی۔ اس نے محسوس کرلیا تھا کہ میں کس قدر شدید جذباتی اتھل پتھل کا شکار ہوکر رہ گیا ہوں۔ نہ مجھ سے بولا جارہا تھا نہ میں سوال سن رہا تھا اور نہ ہی جواب دینے کے قابل تھا۔ نہ جانے کتنی دیر تک میں اس کی بانہوں میں پڑا سسکتا رہا تھا، بلکتا رہا تھا۔

شیوان کے والدین ایک ”پاکی“ کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کو ناپسند کرنے کے باوجود راضی ہوگئے تھے اور وہ میری زندگی کی خزاں میں بہار کی طرح آکر چھاگئی تھی۔ وہ اسکول میں پڑھاتی تھی۔ بہت ہی دردمند دل کی مالک تھی۔ تمام زندگی اس نے ترقی پذیر تیسری دنیا کے لئے ہی کام کرتے ہوئے وقت گزارا تھا۔ کینیا کے کالوں کے اسکول میں رضاکارانہ طور پر وہ پڑھاتی رہی تھی۔ ساؤتھ افریقہ کی آزادی کی جنگ کے لئے لندن میں ہونے والے مظاہروں میں وہ آگے آگے رہی تھی۔

تنزانیہ کے جوزف نریرے نے جب برطانیہ کی چائے کی کمپنیوں کے خلاف بغاوت کرکے خود ہی چائے برطانوی عوام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا تو شیوان دل و جان کے ساتھ لندن کی ایکشن کمیٹی میں سرگرم ہوگئی تھی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی وہ سرگرم رکن تھی۔ ادیس ابابا میں ڈاکٹر ہملین کے فسٹیولا اسپتال کے لئے وہ سارا سال چندہ جمع کرتی رہتی تھی۔ شیوان ایک خوبصورت عورت ہی نہیں تھی بلکہ خوبصورت دل و دماغ کی بھی مالک تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے یورپ میں ایک تیسری دنیا کی عورت پیدا ہوگئی تھی۔ ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں۔

پاکستان سے میرا تعلق ختم ہی ہوگیا تھا۔ مجھے نجمہ کی شادی کی خبر ملی تھی۔ ابا جان اور امی کا انتقال ہوا تھا پھر کراچی سے، پاکستان سے تمام رشتے ٹوٹ گئے۔ رشتوں کے ٹوٹنے کے باوجود پاکستان سے ایک رشتہ قائم تھا۔ ریڈیو پر پاکستان کے بارے میں خبریں آتیں تو میں سنتا ضرور تھا، ٹیلی ویژن پر پاکستان کے بارے میں پروگرام ضرور دیکھے جاتے تھے اور اخبارات کی خبریں اور تجزیے پابندی سے پڑھتا تھا۔ بھارت اور پاکستان کی جنگ ہوئی، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، ہندوستان ایٹم بم کا دھماکا کر بیٹھا، پاکستان بھی بم بنارہا ہے پاکستان میں فوج آگئی وغیرہ، ہر خبر کی اہمیت تھی۔

رشتوں کے ٹوٹنے کے بعد ایک اور ہی عجیب قسم کا رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ کبھی کوئی پرانا کلاس فیلو ملتا تھا تو پاکستان کی باتیں ہوتی تھیں۔ کشمیریوں کے حقوق کی باتیں اور دنیا کی نا سمجھی کا رونا کہ پاکستان پر پابندی ہے، اسرائیل تو بم بنا سکتا ہے مگر پاکستان کو اجازت نہیں تھی۔ پاکستان سے رشتہ دلچسپ بھی اور عجیب بھی۔ ایٹمی جنگ کے خلاف ہونے کے باوجود اس وقت میرا خیال تھا کہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پاس بھی ایٹم بم ہونا چاہیے۔

میں اور شیوان زندگی کا بھرپور لطف اٹھارہے تھے۔ دو بچے تھے ہمارے زندگی کامیا ب تھی، خوشیاں جیسے ہمارا مقدر بنی ہوئی تھیں۔ زندگی سے مزید کچھ اور مانگا نہیں جاسکتا تھا۔

سال میں دو چھٹیاں ہم لوگ ضرور مناتے تھے، ایک دفعہ تیسری دنیا کے کسی غریب ملک میں اور ایک دفعہ یورپ امریکا کی کسی خوبصورت جگہ پر۔ شیوان کا خیال تھا کہ بچوں کو ہر طرح کی جگہ دکھانی چاہیے۔ اس دفعہ ہم لوگ ادیس ابابا گئے تھے، ادیس ابابا کا ہزاروں سال پرانا شہر جہاں ڈاکٹر ہملین کا فسٹیولا کا اسپتال بھی تھا۔ یہ اسپتال افریقہ کی ٹھکرائی ہوئی عورتوں کی پناہ گاہ تھی۔ افریقہ کے ان علاقوں میں جہاں نہ ڈاکٹر ہیں نہ مڈوائف نہ اسپتال ہیں اور نہ ہی زندہ رہنے کی سہولتیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3