مشال خان کا سوال: خدا کی لاٹھی بے آواز کیوں ہے؟


مجھے آوازیں سنائی دیں، میں اپنے ہوسٹل کے کمرے میں جا چھپا۔ میرے نام کا ایک خط، جو مسلسل میرے مقدر کا پیچھا کررہا تھا، اُس پہ صاف لکھا تھا کہ یونیورسٹی میں میرا داخلہ ممنوع ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میرے داخلے پر پابندی کا شور میرے کمرے تک آن پہنچے گا۔ میں اپنے آپ کو قفل میں قید کرنا چاہا تھا، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں کیا کروں۔ پہلے میرے دوستوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ میں بھاگتے بھاگتے اپنے کمرے میں جا چھپا ہوں اور ایک دوست نے باہر سے تالا لگا دیا ہے۔

میری آنکھوں نے معصومیت کی کسوٹی پہ خود کو وہ کبوتر سمجھا جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرکے یہ گمان رکھتا ہے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا، ٹھیک اسی طرح میں ٹرالی کے عقب میں اپنے وجود کو سمیٹ کر بیٹھ گیا۔

دل ہی دل میں بہت دعائیں کی کہ میں اُن درندوں سے کسی طرح بچ نکلوں۔ ایک دم مجھے دروازے پہ لاتوں کا شور سنائی دیا، جیسے میری راہ داری پر کسی فوج نے حملہ بول دیا ہے۔ میں کانپنے لگا اور پھر لکڑی کے دروازے پر ٹکٹکی نظروں سے دیکھنے لگا کہ شاید مجھے دبوچنے کا راستہ یہ دروازہ ہی روک لے، مگر وہ بازو اور لاتیں بہت جاندار تھی اتنی کہ کوئی جاندار اِن سے بچ نہیں نکل سکتا تھا۔

اب دروازہ ٹوٹ چکا ہے تیز رفتار بھیڑ نے مجھے گز بھر کُٹیا میں فوری طور پہ ڈھونڈ نکالا اور مجھے بری طرح سے مارنا پیٹنا شروع کردیا تھا میں نے اپنی بہت حفاظت کرنی چاھی مگر اس کوشش نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا اور اُن درندہ صفت لوگوں نے میرے وجود میں بارود اتار دیا۔ گرم سیسہ میرے وجود کی ہڈیوں میں گھس کر شدید اذیت دے رہا تھا۔ میں درد سے بری طرح کراہتا رہا مگر اللہ اکبر کے نعروں تلے مجھ سمیت میری آواز کو بھی روند دیا گیا۔

میرے حلق نے کلمے کی صدا بھی لگائی مگر زخمی حالت میں میرا وجود نڈھال تھا میں نے اپنے ٹوٹے وجود کو پوری طاقت کے ساتھ کھینچنا چاھا مگر حرکت نے سانسوں سے الجھنا شروع کردیا۔ میں اپنے دوست کو کہنے لگا میں مسلمان ہوں اور میں نے کوئی توہین نہیں کی مگر میری بات سننے سمجھنے کو کوئی تیار نہیں نہ ہی مجھ پہ یقین کرنے کو کوئی بھی تیار ہے

میں شکستہ آوازوں میں چلا رہا ہوں خدارا مجھے ہسپتال لے جاؤ۔ ۔

مگر تشدد رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ہجوم نے میرے ساتھیوں کو پہلے ہی زخمی کردیا تھا اور جس دوست سے التجا کی تھی وہ اب مجھے دھندلا سا دکھائی دینے لگا ہے۔

شاید اب میرا عقیدت مندوں کی بستی سے رخصت ہونے کا وقت آگیا۔

میرا وجود ستر ماؤں کی زچگی کا درد سہہ رہا ہے میں دم توڑ رہا ہوں۔ اور میری آنکھیں بند ہوں رہی ہیں۔ اب میں مکمل سنگسار کردیا گیا ہوں ”میری لاش سیڑھیوں پہ پڑی ہے مگر ہجوم کے کلیجوں میں اب بھی دھرم کی جلتی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی، مجھے تیسری منزل سے گھسیٹا جا رہا ہے۔ میری لاش ایک ایک سیڑھی کی مار کھاتی کھاتی تیسری سے دوسری اور دوسری سے پہلی منزل کی جانب روند دی گئی۔ پہلی منزل پہ آکر مجھے اوپر سے نیچے پھینک دیا گیا۔

گراونڈ فلور پر پڑا ہوں، مذہب پسندوں کے لشکر نے میرے سر پر بھاری گملے پھوڑ دیے، مسلسل گملوں کی برسات سے میری کھوپڑی میں شگاف پڑ گیا ہے۔

سب مجھے مارے جا رہے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ مسلسل گھسیٹا جارہا ہے۔ میرے ساتھ ہونے والے ظلم و سِتم کی ویڈیوز بنائی جارہی ہیں مگر میری لاش کو کوئی ہسپتال پہچانے کو تیار نہیں۔

میں نے مرتے وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ ویڈیوز میرے گھر والوں تک پہنچ گئی تو ان پہ کیا گزرے گی۔

میرے بس میں ہوتا تو مکمل کوشش کرتا کہ کسی طرح ہجوم میں کسی ایک کا ہاتھ تھام کر التجا کروں کہ ”اے میرے مسلمان بھائی“ تیرا یہ شر میرے بوڑھے والدین کو اندر سے توڑ دے گا۔ اگر ویڈیو بنانے کے بجائے یہ ہاتھ ان فتنوں کو روکنے کے لیے استعمال کرلیں جو مجھے تن سے جدا کرنے کے بعد بھی نہیں مان رہے۔

دیکھو میں مرچکا ہوں مگر تم پھر بھی باری باری مجھ پہ اچھل کود کیے جا رہے ہو۔ ۔

ایک پولیس والا گوشت کے لوتھڑے کو بچانے کے واسطے آیا تو ہے مگر سنو تمہارے صاحب نے جب تماشا مکمل دیکھا پھر تمہیں بھیجنے سے کیا فائدہ؟

سنو تم چلے جاو اگر اب کچھ کرسکتے ہو تو بس اتنا کردو کہ میری ماں تک میری موت کی اصل داستان کو چھپا لینا۔ میں نہیں چاھتا کہ وہ اتنی دُکھی ہو اور سوچے کہ کاش میرا بیٹا اس کرب سے مرے گا تو میں اپنے لخت جگر کو پیدا ہوتے ہی اپنے سینے میں دبا کر مار دیتی۔ کاش میں اپنی چھاتیوں کا دودھ سوکھنے سے پہلے ہی مشعل بجھا دیتی۔

تم سب میرے وجود کے نشان مٹا ڈالو، میری بہنوں کا سرخ آنچل بھی ان زخموں کی لالی کا مقابلہ نہیں کر پائے گا،

سنو لوگو! کیا میں بوڑھے باپ کے کاندھوں پر جوان لاش بن کر ڈھیر پڑا اچھا لگوں گا؟

میری لاش کو اٹھانے یہ کون لوگ آئے ہیں؟ مجھے سرد خانے میں پہچانے کے واسطے مجھے سفید لٹھے میں لپیٹا گیا ہے اور یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا پوسٹ مارٹم ہوگا کہ میری موت کیسے اور کب ہوئی۔ میرے وجود پر پڑے شکن لگتا ہے شاید صاف دکھائی نہیں دے رہے۔

میرا لاشہ گھر کی جانب رواں ہے۔ میں برف کی سلوں میں بھی کانپ رہا ہوں۔ مگر وہی ہوا نا ماں، جس کا مجھے خطرہ تھا، تونے مجھے دیکھ لیا نا ماں۔

تو مجھے سینے سے لگا کر ماتم کررہی ہے مگر میں تجھے جواب نہیں دے سکتا۔ میں اپنی ٹھنڈی آہیں کیسے سناؤں؟ دیکھ ماں میں اس سماج کے قانون دانوں کی طرح بہت بے بس سا ہوں؟ ماں تو ماتم مت کرنا۔ دیکھ میں چلا گیا ہوں تو صبر کرلے۔ بالکل ویسے جیسے ہزاروں پاکستانی بم دھماکوں میں مارے گئے، کتنی ماؤں نے صبر کا کڑوا گھونٹ پیا ہوگا تو بھی پی لے ماں۔

بابا تم مجھے پکڑ پکڑ کر کیا کہہ رہے ہو کہ ظالمو نے الزام بھی ایسا لگایا کہ میرے بیٹے کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے کون آئے گا؟ کون مجھے کاندھا دے گا؟

بابا اگر کوئی نہیں آئے تو فرخندہ کی طرح عورتوں کے کاندھوں پہ سوار ہوکر چلا جاوں گا ایک کاندھا ماں کا، دو بہنوں کا اور آخری کندھا تیرا۔ بابا۔
]
یہ میرے کانوں میں کیا آواز آرہی ہے کہیں اعلان ہو رہا ہے کہ میرے جنازے میں شرکت کرنے والا گناہ گار ہو گا۔ مجھے آخری آرام گاہ تک پہنچانے کے بندوبست میں میرے باپ کا دُکھ مجھے اور بھی ستا رہا ہے۔

ماں میرا وجود چومتی اور دھاڑیں مارنا شروع کردیتی۔ میری ٹوٹی انگلیوں نے قہر کی داستان اور بھی طویل کر دی ہے

میں اپنے باپ کا پہلا اور آخری سہارا تھا جو دفن ہونے جا رہا ہے۔ گلی محلے والوں کی آنکھوں میں سوال ہیں۔ بابا میں بے قصور ہوتے ہوئے بھی تمہیں بڑھاپے میں سوالوں کے نشتروں کے بیچ چھوڑ گیا، ہوسکے تو تم سب مجھے معاف کردینا۔

مگر مجھ سے جڑی خبریں اب سوشل میڈیا سے لے کر میڈیا پر آگئی ہیں اور ہمیشہ کی طرح قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ قدامت پسند مجھے ابھی بھی کافر سمجھ رہے ہیں اور لبرلز میری موت پہ مظاہرے کررہے ہیں، ملحدین اس واقعے کا ذمے دار مذہب کو قرار دے رہے ہیں، سوشلسٹ نظام کو لعن طعن کر رہے ہیں۔ سرخے میرے سر پر پہنی ٹوپی کو سچ کی سزا قرار دے رہے ہیں۔ سیاست دان اور مولوی 48 گھنٹے چُپ رہنے کے بعد میری موت کو ناحق قرار دیتے ہوئے مجھے شہادت کا درجہ نصیب ہوا کہہ کر قوم کے بہت سے مشعل کو انتہا پسندی سے بچانے کے ٹوٹکے بھی پیش کررہے ہیں۔ مذمت کا تھوک میری موت پہ لگایا جاتا رہا ہے، میرے والد کو میری موت کے بعد جلتی مشعل کی فکر لاحق ہوگئی ہے میری ماں بہنوں کے دل سے بددعائیں نکل رہی ہیں۔ ہر طرف طوفان برپا ہے، میرے قتل کا مرکزی ملزم بھی پکڑا گیا، جس نے اقرار جرم بھی کر لیا ہے۔

سب نے طرح طرح کے سوال کیے میرے ایمان کو اپنے اپنے نظریے اور عقیدے کے ترازوں میں تولتے رہے، کوئی یہ سوچنے سمجھنے کی جرات نہیں کررہا کہ جنت اور دوزخ کے فیصلے قبل از روزِ محشر ہم زمین پر کرتے تو آئے ہیں مگر ہم زمینی خدا بننے کے بعد اُس آسمان پر بیٹھے خدا کے فیصلے بھی اپنی من مرضی سے کروانے کی ضد لئے بیٹھے ہیں

13 اپریل 2019 میری موت کو دو برس بیت گئے۔ سب ویسا ہے ہاں کچھ بدلا تو صرف اتنا کہ اب حکومتِ پاکستان کے گریبان غیر محفوظ ہوگئے تو مجبوراً ایک اشتہار چلانا پڑگیا کہ جھوٹی توہین کی غلط خبر پھیلا کر معاشرے میں انتشار پھیلانے سے گریز کریں اور یہ سب بھی اس لیے کہ میرے جسم کو نوچنے والے گدھ کہیں مذہب کے نام پر ان سیاست دانوں سے اپنی دشمنی نہ نکال لیں جو ماضی میں عقیدے کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

اور میں منوں مٹی کے نیچے آج بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).